لاہور ٹریفک پولیس نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سڑکوں یا گلیوں میں 18 سال سے کم عمر کے بچے اگر گاڑی، موٹر سائیکل، رکشہ یا کسی قسم کی کوئی بڑی سواری چلاتے ہوئے پکڑے گئے تو ان کی سواری کو ضبط کرلیا جائے گا۔
لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان رانا عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سٹی ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور مستنصر فیروز نے یہ فیصلہ کم عمر ڈرائیورز کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں اضافے کے سبب لیا ہے۔
رانا عارف نے بتایا: ’ہم (اس سے قبل) صرف 200 روپے کا چالان کرتے تھے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ اب سی ٹی او کے احکامات کے مطابق ایسی سواری جسے کم عمر بچے چلا رہے ہوں، اسے متعلقہ تھانے میں بند کر دیا جائے گا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس سواری کو لینے کے لیے والدین کو تھانے آنا ہوگا، جہاں وہ ایک بیان حلفی دیں گے اور اس بات کا اقرار کریں گے کہ وہ اپنے بچوں کو دوبارہ کوئی سواری چلانے نہیں دیں گے جب تک کہ ان کا لائسنس نہ بن جائے۔‘
سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز کے مطابق کم عمر ڈرائیورز کی وجہ سے حادثات کا اندیشہ رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر ڈرائیورز کے مستقبل کے پیش نظر انہیں تھانے میں بند تو نہیں کیا جائے گا لیکن ان کی سواری واپس نہیں کی جائے گی جب تک کہ والدین بیان حلفی ریکارڈ نہ کروائیں۔
لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان رانا عارف کے مطابق پنجاب میں روزانہ 11 افراد ٹریفک حادثے کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم ایک ڈرائیور کم عمر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’رواں برس ہم اب تک تقریباً 25 ہزار چالان کر چکے ہیں لیکن چونکہ چالان کی رقم کم ہے، اس لیے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔‘
ریسکیو 1122 کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق: ’10 اکتوبر 2004 سے 18 مئی 2023 تک صوبہ پنجاب میں ایک لاکھ 17 ہزار ایک سو تین کم عمر ڈرائیور ٹریفک حادثات کا شکار ہوئے اور صرف لاہور میں ان بچوں کی تعداد 77 ہزار ایک سو سولہ ہے۔‘
رہائشی کیا کہتے ہیں؟
ظفر علی لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں ایک سپر سٹور کے مالک ہیں۔ جس جگہ ان کا سٹور ہے، وہاں ایڈن سٹی کی حد ختم ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مشاہدے میں ہر روز بہت سی چیزیں آتی ہیں اور ان کے سٹور پر جو گاہک آتے ہیں وہ ان سے بھی اچھی جان پہچان رکھتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے ایک دلخراش واقعہ بتایا، جب گذشتہ برس ان کے سٹور سے کچھ پیچھے ایڈن سٹی کی سڑک پر ایک ایکسیڈنٹ ہوا، جس میں گاڑی چلانے والے کی عمر 15 یا 16 سال تھی، جن کے ساتھ ان کی والدہ بھی بیٹھی تھیں۔
ظفر نے بتایا: ’میں اس بچے کو جانتا تھا کیونکہ وہ ہمارے سٹور پر آتے جاتے تھے اور اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ بچے نے اپنی گاڑی سے سائیکل پر سوار ایک 20، 22 سالہ مزدور کو ٹکر ماری تھی۔‘
ان کے مطابق اس حادثے کے بعد پولیس میں مقدمہ ہوا، لیکن چونکہ بچہ ایک اثر رو رسوخ والے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے والدین نے جان سے جانے والے مزدور کے خاندان کو دیت دے کر معاملہ رفع دفع کروا دیا۔
اس حادثے کی تصدیق اسی علاقے کی رہائشی فرزانہ ناصر نے بھی کی، جن کا کہنا تھا: ’ٹکر لگنے کے بعد شاید گاڑی چلانے والا بچہ گھبرا گیا۔ بجائے اس کے کہ اور ان کی والدہ گاڑی سے اتر کر مزدور کو دیکھتے، اس بچے نے ڈر اور گھبراہٹ میں سڑک پر زخمی حالت میں گرے اس مزدور نوجوان کے اوپر سے گاڑی گزار دی جس سے وہ وہیں موقع پر ہی چل بسا۔‘
فرزانہ کے مطابق: ’کم عمر ڈرائیورز اکثر حادثات کا سبب بنتے ہیں اور ایسے حادثات میں نقصان دونوں طرف کا ہوتا ہے، جس کی ذمہ داری ان والدین پر ہے جو کم عمر بچوں کو بغیر لائسنس گاڑی چلانے کی اجازت دیتے ہیں۔‘
دوسری جانب ظفر علی نے مزید بتایا کہ اس حادثے سے کچھ عرصہ قبل بھی یہی بچہ تیز رفتاری میں گاڑی سمیت علاقے کے گندے نالے میں جا گرا تھا، تب بھی ان کی نئی گاڑی برباد ہوئی اور وہ خود بھی زخمی ہوا تھا۔
ظفر کے مطابق حالیہ حادثے کے فوراً بعد ایڈن سٹی کی انتظامیہ نے ڈی ایچ اے اور ایڈن سٹی کی درمیانی سڑک پر ایک نوٹس بھی لگایا کہ 18 سال سے کم عمر ڈرائیور اب سڑکوں پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے دکھائی نہ دیں لیکن اس بورڈ کو سبھی نظر انداز کر چکے ہیں اور یہاں آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس بچے کے گھر والوں سے رابطے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ظفر نے بتایا کہ ان کے سٹور پر ایسے بہت سے بچے آتے ہیں جو کم عمر ہوتے ہیں لیکن یا تو وہ موٹر سائیکل پر آتے ہیں یا گاڑیوں پر اور ان کے ساتھ کبھی کبھار والدین یا خاص طور پر والدہ ہوتی ہیں۔
’یہ بچے اتنی تیز گاڑیاں چلاتے ہیں کہ آئے روز ہمارے سامنے حادثات ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ کم عمر بچیاں بھی آتی ہیں جو اکیلی موٹر سائیکل چلا کر آتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ بے شک وہ مرکزی سڑک پر اپنی سواری نہیں چلا رہے ہوتے لیکن اندر گلیوں میں بھی ان بچوں کو کوئی بھی ایسی سواری چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور مختلف علاقوں کے رہائشیوں سے یہ سوال پوچھا کہ ’کیا کم عمر بچوں کو گاڑیاں یا موٹر سائیکلیں دے کر باہر سڑک پر نکلنا چاہیے؟‘ جس پر صارفین میں سے بیشتر نے اس بات کا جواب نفی میں دیا۔
ایک فیس بک صارف مریم تاثیر کا کہنا تھا: ’ہمارے خاندان نے اپنی ایک آٹھ سالہ بچی کو کھویا ہے، جو اس موٹر سائیکل سے گری جو اس کا 16 سالہ بھائی چلا رہا تھا، اس لیے ایسی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘
ایک صارف عاصمہ احمد نے بتایا کہ ان کا بیٹا 17 برس کا ہے اور وہ موٹر سائیکل کی ضد کر رہا ہے لیکن ایسے حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہم نے اسے موٹر سائیکل نہیں لے کر دی۔
نبیلہ امبرین کہتی ہیں کہ ’انہیں ایسے والدین پر شدید غصہ آتا ہے جو اپنے کم عمر بچوں کو اس چیز کی اجازت دیتے ہیں۔‘
اسی طرح ایش شاہ کہتی ہیں کہ ’بچوں کو ڈرائیونگ ضرور سکھانی چاہیے لیکن 16 سال سے پہلے نہیں اور نہ ہی والدین کی غیر موجودگی میں اور والدین کی موجودگی میں بھی ان کی گاڑی پر سرخ رنگ کے ٹیپ سے بڑا بڑا L لکھا ہونا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ گاڑی چلانے والا ابھی سیکھ رہا ہے۔‘
ایک اور صارف رانیم راحیل سلمان کہتی ہیں کہ بچوں کو 18 سال سے پہلے گاڑی نہیں دینی چاہیے بے شک انہیں بہت اچھی ہی کیوں نہ چلانی آتی ہو۔
’میرے خیال میں بچے گاڑی چلاتے ہوئے سڑک پر ٹریفک کے مطابق فوری اور عقلمندانہ فیصلہ نہیں لے سکتے۔ ویسے بھی گاڑی چلاتے ہوئے کم عمر بچے دکھاوے میں آکر اپنے دوستوں یا ساتھ جانے والی گاڑیوں سے ریس لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ریس جیتنا ان کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے اور رہی سہی کسر ٹک ٹاک بنانے کے شوق نے پوری کر دی ہے، جو اکثر کسی حادثے کا سبب بن جاتا ہے۔‘