22 سالہ بلال تاج کراچی میں راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں ملازم تھے۔
شاپنگ مال میں آتشزدگی کے دوران جب انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم جائے وقوعہ پر تھی، اس وقت بلال تاج کے بہن بھائی اور والد عمارت کے پاس بے چینی کی کیفیت میں کھڑے ہوئے تھے۔
وہ تمام اداروں سے بلال تاج کو تلاش کرنے کی گذارش کر رہے تھے۔ پانچ گھنٹے بعد آگ بجھانے کا عمل مکمل ہوا اور 40 سے زائد افراد بچا لیے گئے۔ اس وقت نو افراد جان سے جانے کی خبر آئی۔
اسی دوران جب بلال کے والد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کر رہے تھے تو اچانک شور ہوا کہ ’راستہ دیں، ڈیڈ باڈی ملی ہے ایک۔‘
ان کے والد بھاگتے ہوئے آگے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ باڈی 22 سالہ بلال تاج کی ہی تھی۔
بلال کے چچا زبیر الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں جلی ہوئی لاشوں کی تصویر دکھائی گئی جس میں بلال تاج کی کوئی شناخت سامنے نہیں آئی۔ تاہم بلال فوڈ کورٹ میں کام کرتا تھا اور وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، وہ بہنوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ان کی اچھے سے شادیاں کروائے۔ ہم جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اللہ جانتا ہے۔ بلال کے دفتر سے اب تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔‘
’ہم سوال کرتے ہیں کہ اتنے بڑی بڑی عمارتیں کھڑی ہو جاتی ہیں جن میں کوئی ہنگامی اخراج کا راستہ نہیں ہوتا، ان کا نقشہ کیسے پاس ہو جاتا ہے؟ آخری بار بلال نے اپنی ماں سے کال پر کہا تھا کہ ’دعا کریں امی! عمارت میں آگ لگ گئی ہے۔‘
واضح رہے کہ 25 نومبر کو کراچی میں راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال میں آگ لگنے کے سبب دھوئیں کے باعث دم گھٹنے سے 11 افراد جان سے گئے جب کہ 22 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
آگ لگنے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں تھانہ شاہراہ فیصل میں درج کر لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں مجرمانہ غفلت، قتل بالسبب، نقصان رسائی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں اور کے الیکٹرک سمیت دیگر ادارے نامزد کیے گئے ہیں۔
مقدمے کے متن کے مطابق ’صبح پانچ بجے آر جے شاپنگ مال میں آگ بھڑکی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے چھ منزلہ عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، عمارت میں موجود لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے سیڑھیوں اور برقی لفٹ کا سہارا لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آگ کی تپش کی وجہ سے شاپنگ مال میں موجود لوگ جھلس گئے، زخمیوں کو ایمبولینس کے ذریعے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جب کہ شدید زخمی افراد میں سے کئی دوران علاج دم توڑ گئے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’عمارت میں آگ بجھانے کے حفاظتی آلات موجود نہیں تھے نیز ہنگامی اخراج کا راستہ بھی نہیں تھا۔‘
’قوی شبہ ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی، تاہم تحقیقات کے نتیجے میں آگ لگنے کی حتمی وجہ کا تعین ہوگا۔‘
تحقیقاتی کمٹیی
ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو سات روز میں نتائج مرتب کرے گی۔
قبل ازیں کراچی پولیس کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم نے شاپنگ مال کا معائنہ کیا۔
ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر کے مطابق ’عمارت کی حتمی رپورٹ آنے تک پولیس تعینات کر کے اسے بند رکھا جائے گا۔‘