جب خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر یورپ بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل رہی ہیں، اطالوی مظاہروں کے دوران ایک نیا نعرہ لگایا جا رہا ہے: ’سب کچھ جلا دو۔‘
یہ پیغام بائیو میڈیکل انجینئرنگ کی 22 سالہ طالبہ جیولیا سیچیٹن کی بہن کی جانب سے سامنے آیا جو 18 نومبر کو مردہ پائی گئی تھیں۔
جیولیا اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ساتھ وینس صوبے کے مقامی میک ڈونلڈز میں رات کا کھانا کھانے کے بعد لاپتہ ہوگئی تھیں۔ ایک ہفتے کی تلاش کے بعد ان کی لاش ایک تالاب کے قریب سے ملی۔
یہ جولیا کی بہن ایلینا سیچیٹن ہی تھیں جنہوں نے ان کی موت کے بارے میں جاننے کے بعد اطالوی ٹی وی شو ڈریٹو ای روسیو میں ایک اپیل کے ساتھ بحث کو بھڑکا دیا: ’جیولیا کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہ کریں۔ جیولیا کے لیے سب کچھ جلا دیں۔‘
پیرو کی سرگرم کارکن کرسٹینا ٹورس کیسریس کی ایک نظم سے متاثر اس جملے نے اٹلی بھر میں احتجاج کو جنم دیا، جس میں پاڈوا یونیورسٹی سمیت متعدد سکولوں میں ایک منٹ کا شور بھی شامل تھا، جہاں جیولیا کو بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں پانچ دن میں ڈگری حاصل کرنی تھی۔
لیکن ’سب کچھ جلا دو‘ کا کیا مطلب ہے؟
خود ایک اطالوی خاتون ہونے کے ناطے، میں انہی گلیوں میں چلتی پھتری تھی جن میں اب طالب علم احتجاج کر رہے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ اس کا جواب مجھے معلوم ہے۔
ایلینا نے اطالوی شہریوں پر زور دیا کہ وہ 'ریپ کلچر کو ختم کریں جس کا مقصد خواتین کی آزادی کو محدود کرنا ہے'، جیسے کہ اپنے ساتھی کے فون کو پاگلوں کی طرح چیک کرنا، اس کا مالک ہونا یا یہاں تک کہ کیٹ کالنگ یا غیراخلاقی جملے کسنا شامل ہیں۔
میں نے براہ راست تجربہ کیا کہ یہ نظام کیسا نظر آتا ہے۔ مرد ساتھیوں کی طرف سے غیر ضروری توجہ، جنسی تبصرے اور یہاں تک کہ ’حادثاتی‘ طور پر چھاتی کو چھونا۔
میری بہت سی خواتین دوستوں نے گذشتہ ہفتے مجھے بتایا کہ کس طرح انہیں شراب کے نشے میں دھت مردوں کے گروپوں کی جانب سے سڑکوں پر ہراساں کیا گیا، کس طرح ایک اجنبی نے ایک پبلک ٹرین پر اس وقت ان کی ٹانگیں چھوئیں جب ان کی عمر 15 سال تھی، یا کس طرح حسد ان کی آنکھوں کے سامنے گھریلو تشدد میں بدل گیا۔
اگرچہ یہ تمام اقدامات انتہائی تشدد کے واقعات کا باعث نہیں بن سکتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں ہم خواتین کبھی بھی آرام محسوس نہیں کرتی ہیں۔
پڈوا کی یونین ڈیگلی یونیورسٹی کی رکن ایما روزن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 'طالبات کی حیثیت سے ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔
'ہم ان خواتین ساتھیوں اور کلاس فیلوز کے بارے میں جانتے ہیں جنہیں رات کو گھر واپس آتے وقت ہراساں کیا جاتا تھا یہاں تک کہ دن کے وقت بھی بار میں یا یونیورسٹیوں کے دالانوں میں۔‘
’بہت سی عورتیں ایسی بھی ہیں جو [بدسلوکی] کی اطلاع نہیں دیتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد صفر کے قریب ہے۔‘
اگر یہ آپ کو یہ صورت حال بہت جانی پہچانی لگتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہراسانی اور بدسلوکی صرف ایک اطالوی مسئلہ نہیں ہے۔
اٹلی کے وزیر داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جیولیا 2023 میں اٹلی میں ہلاک ہونے والی 103 ویں خاتون تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تعداد برطانیہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں 2023 میں اب تک 109 خواتین کو قتل کیا جا چکا ہے۔ سارہ ایورڈ یا حال ہی میں گریسی سپنکس جیسے مقدمات کے بعد پولیس پر اعتماد بھی کم ہو رہا ہے، جنہیں ان کا پیچھا کرنے والے نے پولیس میں رپورٹ کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔
تاہم، جیولیا کی موت (دراصل) اٹلی میں پہلے سے کہیں زیادہ شور پیدا کر رہی ہے کیونکہ اس سے ایک بلبلا پھٹ رہا ہے جو برسوں سے بن رہا تھا۔
2016 میں امریکی فلم انڈسٹری کے مرکز کو ہلا دینے والی #MeToo تحریک نے اٹلی میں کبھی قدم نہیں جمایا اور مجھ جیسی خواتین اکثر الجھن میں رہ جاتی تھیں کہ ہراسانی اور بدسلوکی کی اطلاع یا بیان کیسے کیا دیا جائے۔
یہ جیولیا کی بہن کی کارروائی کی اپیل تھی جس نے میرے اور بہت سے دوسرے اطالوی باشندوں کے دل جیت لیے، جس نے ہمیں جنسیت اور ہراسانی پر بحث کو دوبارہ جگانے پر مجبور کیا – اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مردوں کو ان کے اور ان کے دوستوں کے عمل کے لیے جوابدہ ہونے کے لیے کہا گیا۔
لیکن تبدیلی اداروں کے اندر سے بھی آنی چاہیے۔
اٹلی کا وزیر اعظم بننے سے قبل خود ایک پیچھا کرنے والے سے نمٹنے والی جارجیا میلونی پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں کہ انسداد تشدد کے منصوبے، سکولوں میں آگہی کی مہم اور تعاقب اور تشدد کے متاثرین کے لیے ہیلپ لائن کے فروغ کے لیے مزید فنڈز مختص کیے جائیں گے۔
کیا یہ ’نظام کو جلانے‘ کے لیے کافی ہے؟ ایسا نہیں ہوگا جب تک کہ ہم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ تبدیلی کا زور جیولیا کے ساتھ ختم نہیں ہوگا۔
اٹلی بلکہ برطانیہ اور دنیا بھر میں ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ہر روز کام کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اگلے 25 نومبر تک ان کے ملک میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد کافی کم ہو جائے گی۔
© The Independent