متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 30 نومبر (آج سے) کوپ 28 کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں پاکستان سمیت 200 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ اجلاس میں شرکت کے لیے دبئی میں پہنچ چکے ہیں۔
دبئی کے ایکسپو سینٹر میں اقوام متحدہ کے ’فریم ورک آن کلائمیٹ چینج‘ کے زیر انتظام ہونے والا یہ اجلاس ماحولیاتی تبدیلی پر ہونے والے ایک انتہائی اہم سالانہ کانفرنس ہے۔
30 نومبر سے 12 دسمبر کے درمیان جاری رہنے والی اس عالمی کانفرنس میں دنیا کے 197 ممالک کے رہنما کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر غور کریں گے۔
Caretaker Prime Minister Anwaar-ul-Haq Kakar has arrived in Dubai, UAE to attend the 28th United Nations Conference of Parties.
— Prime Minister's Office (@PakPMO) November 29, 2023
Minister for Justice of the United Arab Emirates H.E. Abdullah Sultan bin Awad Al Nuaimi, Pakistan's Ambassador to the UAE Mr. Faisal Niaz Tirmzi and… pic.twitter.com/3ISIpa2XAp
کوپ 28 کے دوران کوپ فورم کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کے ساتھ ’پیرس معاہدے‘ کے اہداف کے حصول کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کوپ 28 میں متبادل توانائی کے ذرائع کے استعمال سے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کے اہداف مقرر کیے جائیں گے۔
گذشتہ سال مصر میں ہونے والی کوپ 28 کے دوران امیر ممالک سے ماحولیاتی تبدیلوں سے بچنے کے لیے متاثرہ غریب ممالک کو رقم دینے کے لیے ’لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘ کا قیام کیا گیا تھا مگر تاحال یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ اس فنڈ کے تحت کون سے ممالک کس کو کتنی رقم اور کیسے ادا کریں گے۔
اس پر کوپ 28 کے دوران کنونشن کے 24 رکن ممالک اس طریقہ کار پر مل کر کام کریں گے کہ کن نقصانات کی مد میں کون سے ممالک کس کو کتنی رقم ادا کریں۔
پاکستان کی کوپ 28 سے توقعات
پاکستان سمیت وہ تمام ممالک اور خطے جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے ایندھن اور دیگر ذرائع سے خارج ہونے والی گیسز کا اخراج نہ کرنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی آفتوں سے متاثر ہیں وہ اس کانفرنس سے اپنے لیے کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں۔
موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) میں پاکستان کے نمائندہ اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ’پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں ایک ہے اور اس کانفرنس کے دوران پاکستان کو دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ’کوپ 28 کے دوران پاکستان عالمی کمیونٹی کو آگاہ کرے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کن آفات کا سامنا ہے۔ ان میں شمالی علاقہ جات میں برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہونے کے بعد وہاں آنے والے سیلاب یا گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز، سیلاب، سطح سمندر میں اضافہ، ہیٹ ویوز، لینڈ سلائڈز شامل ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ’پاکستان میں 2010 اور 2022 کے سیلاب ملکی تاریخ کے بڑی قدرتی آفات تھیں۔ پاکستان نے اس کانفرنس کے دوران عالمی کمیونٹی کو یہ بتانا ہے کہ ان آفات کے دوران عالمی برادری نے پاکستان کے لیے بڑے وعدے کیے، مگر ان وعدوں کا تاحال 33 فیصد ہی پاکستان کو مل پایا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات عالمی برادری کو بتانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کی معشیت پر ہو رہا ہے کیوں کہ پاکستان کو ہر حال میں اپنے ایڈاپٹیشن اور مٹیگیشن منصوبوں پر کام جاری رکھنا ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو اپنے وعدے پورے کرنا انتہائی ضروری ہیں۔‘
پاکستان کوپ 28 سے کیا مطالبات کرے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ ’پاکستان کو کوپ 28 سے سب سے بڑا مطالبہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی میں عالمی برادری کی پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔ تاکہ ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی کو مقامی کمپنیاں بنا سکیں۔ تاکہ پاکستان کے ایڈاپٹیشن اور مٹیگیشن کے منصوبے حل کرنے میں مدد مل سکے۔
’اس لیے اس بار پاکستان کا سب سے بڑا مطالبہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور عالمی برادی کی پارٹنرشپ پر ہونا چاہیے۔‘
کوپ 28 کے دوران پاکستان کو کیا توقعات رکھنی چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر غلام رسول نے کہا : ’ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ عالمی برادری کسی بھی مد میں پاکستان کو نقد رقم ادا نہیں کرے گی۔ یہ گلوبل فنانس فار کلائمٹ چینج کے مختلف فورمز ہیں۔ ان کے پاکستان کو موثر پروپوزل اس طریقے سے پیش کرے کہ گلوبل فائنانس فار کلائمٹ چینج سے پاکستان کو خاطر خواہ حصہ مل سکے۔‘
پاکستان کی وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ کہ پاکستان کوپ 28 میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے مکمل تیار ہے اور اس مقدمے کے تحت کوپ 28 کے لیے پائیدار مستقبل کے فریم ورک کے ساتھ پاکستان کو مزید ہم آہنگ کیا ہے۔
کوپ کانفرنس کیا ہے اور کب سے منعقد ہو رہی ہے؟
’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا کوپ اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا سپریم فیصلہ ساز پلیٹ فارم ہے۔
یو این کلائمیٹ چینج کانفرنس کی ویب سائٹ کے مطابق اس ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا قیام مارچ 1994 میں ہوا اور یہ کنونشن کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کے ساتھ ’خطرناک‘ انسانی مداخلت کی روک تھام کے لیے بنایا گیا۔
اس کنونشن کے تحت ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے ساتھ کرہ ارض کا درجہ حرارت کم کرانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کنونشن کی جانب سے 1995 سے ’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا کوپ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کوپ کا پہلا اجلاس مارچ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوا۔
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کے رکن یا پارٹی ہیں۔ اس وقت کنوینشن کے 198 ریاستیں رکن یا پارٹی ہیں۔یہ رکن یا پارٹیز وہ ممالک ہیں جنہوں نے 1992 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
یہ تمام ریاستیں کوپ کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس سالیانہ اجلاس یا کوپ کے دوران کنوینشن کی تمام پارٹیز یا رکن ریاستیں کنوینشن کے قائد وظوابط کا جائزہ لینے کے ساتھ ان فیصلوں پرعملدرآمد یقینی بناتی ہیں۔
کوپ کا سیکریٹریٹ جرمنی کے شہر کے شہر بون میں ہے۔ اصولی طور کوپ کا اجلاس مرکزی سیکریٹریٹ میں ہونا ہے مگر کوئی رکن ریاست اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کرے تو اجلاس وہاں بلایا جاسکتا ہے۔
1995 کے بعد رکن ریاستوں کی جانب سے کوپ اجلاس کی میزبانی کی پیشکش ایک روایت بن گئی ہے۔
2015 میں فرانس کے شہر پیرس میں منعقد ہونے والی اس عالمی کانفرنس کے 21 ویں اجلاس یا کوپ 21 کو ایک تاریخی اجلاس مانا جاتا ہے۔ جس کے دوران ’پیرس اگریمنٹ‘ کا قیام کیا گیا۔
پیرس ایگریمنٹ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے والا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر دنیا بھر کے ممالک کو عملدرآمد قانونی طور پر لازمی ہے۔
اس عالمی معاہدے کو کی 196 ممالک نے رضامندی سے منظور کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت 2050 تک کرہ ارض کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے قبل کے درجہ حرارت کے دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد نہ ہو اور ترجیحی طور پر درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اس بار کوپ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری شیڈول کے مطابق رواں ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن یا نائب صدر کمالا ہیرس میں سے کوئی بھی دبئی کا سفر نہیں کر رہا۔
رواں برس اس کانفرنس میں 70 ہزار کے قریب افراد کی شرکت متوقع ہے جن میں پوپ فرانسس بھی شامل ہوں گے۔