’میں رکشہ چلاتا ہوں اور کبھی کبھی ٹریفک پولیس اہلکار روک کر لائسنس کا پوچھتے تھے لیکن میرے ساتھ مہاجر کارڈ ہوتا تھا تو لائسنس نہیں بنا سکتا تھا۔ اس کے لیے بھی مختلف جگہوں پر پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) نہ ہونے کی وجہ سے مسائل تھے لیکن اب امید ہے یہ مسئلے ختم ہوں گے۔‘
یہ کہنا تھا افغانستان کے صوبہ کاپیسا سے تعلق رکھنے والے عبدالصمد کا، جن کے والدین گذشتہ تقریبا 40 سالوں سے پاکستان میں آباد ہیں اور وہ خود بھی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں تاہم صرف ان کی اہلیہ کی پاکستانی شہریت رکھتی ہیں۔
عبدالصمد نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ تو ہے لیکن پاکستان اوریجن کارڈ نہیں تھا، تاہم اس معاملے پر ایک عدالتی فیصلے نے ان کی مشکلات آسان کر دیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ سکول میں ان کے ساتھ پڑھتی تھیں اور ان کی شادی کو نو سال ہوگئے ہیں۔
’میرے تین بچے ہیں جو ایک آٹھ سال، ایک تین سال اور ایک شیر خوار بیٹا ہے۔‘
عبدالصمد کے مطابق ان کی آٹھ سال کی بیٹی سکول اس لیے نہیں جاتی ہیں کہ ان کے پاس پاکستان اوریجن کارڈ موجود نہیں ہے اور سکول جب جاتی ہیں تو ان سے ضروری دستاویزات کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’اس کے علاوہ بھی مجھے وہ حقوق نہیں مل رہے تھے جو دیگر پاکستانی شہریوں کو ملتے ہیں اس کے باوجود کہ میری اہلیہ پاکستانی شہری ہیں۔‘
عبدالصمد نے اسی مسئلے کے حل کے لیے مختلف دروازے کھٹکھٹائے ہیں لیکن آخرکار وہ پشاور ہائی کورٹ پہنچے اور درخواست دائر کی اور عدالت نے اس معاملے میں اب فیصلہ سنایا ہے۔
مگر وہ واحد درخواست گزار نہیں ہیں، یہ درخواست دیگر 101 درخواست گزاروں کے ساتھ دائر کی گئی تھی۔
اب عدالت نے ان پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاکستان اوریجن کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ کارڈ جاری کرنے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی شرط ختم کر دی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سیف اللہ محب کاکاخیل 109 میں 102 درخواست گزاروں کے وکیل تھے جنہوں نے جسٹس وقار احمد اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل بینچ میں کیس کی پیروی کی ہے۔
سیف اللہ محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق اب وہ خواتین جن کے شوہر افغان شہری ہیں، کو پاکستانی اوریجن کارڈ (پی او سی) جاری کرنے کے لیے (valid) ویزا اور پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سیف اللہ محب کاکاخیل نے فیصلے کے بارے میں کہا: ’یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ اس فیصلے سے وہ خواتین مستفید ہوسکتی ہیں جن کے شوہر افغان شہری ہیں اور اب وہ آسانی کے ساتھ پاکستان اوریجن کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔‘
سیف اللہ محب کاکاخیل نے بتایا، ’عدالت نے پی او سی کارڈ جاری کرنے کے لیے پاسپورٹ اور valid ویزا کی شرط ختم کی ہے اور اس کو غیر آئینی اور غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔‘
محب کاکاخیل نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اب پی او سی کارڈ حاصل کرنے کے لیے صرف میرج سرٹیفکیٹ اور شوہر کا غیر ملکی ہونا ضروری ہے اور اس کے علاوہ کوئی بنیادی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو احکامات جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ادارہ 109 درخواست گزاروں کی درخواست پر عدالتی فیصلے کے مطابق عمل کریں تاہم نادرا کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ضروری دستاویزات کی جانچ پڑتال کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محب کاکاخیل نے بتایا کہ نادرا آرڈیننس اور نادرا قوانین کے مطابق پاکستانی خواتین کے غیر ملکی شوہروں کو پاکستان اوریجن کارڈ جاری کیا جا سکتا ہے اور ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جیسے کسی دوسرے پاکستانی شہری کو حاصل ہوتے ہیں، سوائے ووٹ دینے اور پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے کے، جس کا حق ان کو حاصل نہیں ہوگا۔
نادرا کی ویب سائٹ پر موجود پی او سی ان لوگوں کو جاری کیا جاتا ہے جو پاکستانی شہریت ترک کر کے کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کریں۔
اسی طرح پی او سی کارڈ ان لوگوں کو بھی جاری کیا جائے گا جو غیرملکی ہوں لیکن ان کا کوئی بھائی، بہن، چچا، پھوپھی پاکستان شہری ہوں۔
اسی طرح نادرا کے مطابق پی او سی کارڈ ان افراد کو بھی جاری کیا جائے گا جن کی شادی کسی پاکستانی شہری یا سابق پاکستانی شہری سے ہوئی ہو اور اس کارڈ کے بعد ان تمام اہل افراد کو مختلف فوائد اور حقوق حاصل ہوں گے۔
ان فوائد میں نادرا کے مطابق ملٹیپل ویزا فری انٹری، پاکستان میں غیرمعینہ مدت کے لیے قیام اور پاکستان آنے کے بعد کسی بھی پولیس سٹیشن میں رپورٹ جمع کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔
عبدالصمد نے بتایا: ’میں رکشہ چلاتا ہوں اور ابھی کچھ پیسے اکھٹا کر کے عدالتی فیصلے کے بعد پاکستانی اوریجن کارڈ کے لیے درخواست نادرا میں جمع کراؤں گا تاکہ مجھے کارڈ مل جائے اور میرے مسائل کم ہوسکیں۔‘
انہوں نے بتایا، ’ابھی بہت خوش ہوں اور امید ہے کہ میرے مسائل اب ختم ہوجائیں گے جبکہ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کیونکہ سکول میں ان سے پاکستان کارڈ اور دیگر دستاویزات مانگے جاتے تھے۔‘
پاکستانی شہریت کا قانون کیا ہے؟
پاکستان میں شہریت کے حوالے سے ’پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ 1951‘موجود ہے جس کے تحت ’پاکستانی شہری‘ کی تعریف کے حوالے سے شقیں موجود ہیں۔
اس قانون کے تحت پاکستانی شہری وہ ہوگا جو پاکستانی سرزمین پر 14 اگست، 1947 کے بعد پیدا ہوا اور اس تاریخ کے بعد اس نے کسی دوسرے ملک میں مستقل طور پر رہائش اختیار نہیں کی۔
تاہم اس شق میں یہ بھی لکھا ہے کہ پیدائش کے وقت کسی بھی شخص کے والدین نے کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار نہ کی ہو اور اگر ایسا ہے تو وہ شخص پاکستانی شہری تصور نہیں ہوگا۔
اسی طرح اسی ایکٹ کے تحت وہ شخص پاکستان کا شہری تصور ہوگا، جس کے ایکٹ کے نفاذ کے وقت والدین پاکستانی شہری ہوں۔
افغان پناہ گزین، جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، کے لیے 2018 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے شہریت دینے کا اعلان کیا تھا لیکن افغان پناہ گزیوں کے مطابق ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔
پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ افغان پناہ گزین (رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ) موجود ہیں جو مختلف مواقع پر پاکستان نقل مکانی کر کے آئے تھے، اور ان کی سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہے۔