پاکستان کی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے پالیسی کے تحت محکمہ داخلہ کے مطابق اب تک سرحد عبور کر کے دو لاکھ 40 ہزار سے زائد افغان شہری واپس جا چکے ہیں لیکن جمعے سے واپسی کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔
غیر قانونی پناہ گزینوں کی ملک بدری کا حکم اس سال پاکستان میں خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردی میں اضافے کے بعد دیا گیا تھا جس کے بارے میں حکومت نے کہا تھا کہ ان حملوں میں افغان شہری ملوث تھے، تاہم کابل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے مطابق واپسی کا سلسلہ رکنے کی وجہ افغان حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کی واپسی پشاور میں افغان قونصل خانے سے سند لینے سے مشروط کی گئی ہے۔
اب تک یہ افغان پناہ گزین براستہ طورخم، خرلاچی اور انگور اڈہ بارڈر سے واپس افغانستان گئے ہیں۔
محکمہ داخلہ نے بتایا ہے کہ ہر ایک افغان باشندہ پہلے پشاور کے قونصل خانے سے ایک سند حاصل کرے گا تب ہی افغانستان میں داخل ہوگا۔
محکمہ داخلہ نے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے حوالے سے موقف میں بتایا ہے کہ گذشتہ روز کسی بھی افغان پناہ گزین کو واپس نہیں بھیجا گیا ہے اور اس کی وجہ افغان طالبان کی یہ شرط ہے کہ تمام افغان پناہ گزینوں کو پشاور قونصل خانے سے سند لینا پڑے گی۔
انہوں نے بتایا، ’افغان نگران حکومت کا موقف ہے کہ پناہ گزینوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس پروف آف ریزیڈنس (پی او ار کارڈ) یا افغان سیٹیزن کارڈ موجود ہے اور ان کو قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے لیکن ان کو افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔‘
غیر ملکیوں کی واپسی کے حوالے سے گذشتہ روز وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری کی زیر صدارت وفاقی وزارت داخلہ میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس بھی بلایا گیا تھا جس میں یہی مسئلہ بھی زیر بحث رہا ہے۔ اس میٹنگ کے منٹ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ افغان حکومت نے سند کی شرط عائد کی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ اب تک ملک بھر سے چار لاکھ سے زائد غیر ملکی واپس جا چکے ہیں، تاہم بعض مواقع پر قانونی سکونت کے حامل دستاویزات رکھنے والے غیر ملکیوں کو بھی واپس بھیجنے کے واقعات سامنے آئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ اجلاس بلایا گیا ہے۔
اجلاس میں خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے نمائندے کی جانب سے بتایا گیا کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے پاس موجود ڈیٹا مطابقت نہیں رکھتا جبکہ اس کی تصدیق کا عمل بھی پوری ملک میں حوصلہ افزا نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اجلاس کے میٹنگ منٹس کے مطابق، ’وزارت داخلہ کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملک بدری کے وقت غیر ملکیوں سے تصدیق نامہ ( کہ ان کے پاس پی او ار کارڈ یا افغان سیٹیزن کارڈ موجود نہیں ہے، لیا جا سکتا ہے) جس سے افغان حکومت اور بین الاقوامی کمیونٹی سے یہ شکایت رد کی جا سکتی ہے کہ پاکستان دستاویزات رکھنے والے افراد کو بھی ملک بدر کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ بعض کیسز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ افغان باشندوں نے کمپنیوں کو کسی رشتہ دار کو دے کر پی او ار کارڈ یا افغان سیٹیزن کارڈ کو چھپایا ہے اور کچھ ایسے واقعات میں ڈیٹا میں کچھ باشندوں کے پی او اور کارڈز بھی نکل آئے اور ان کو پنجاب واپس بھیجا گیا۔
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغان باشندوں کی باعزت واپسی میں افغان حکومت کی خواہش پر بلک بدر ہونے والے افغان باشندوں کی تصدیق کے لیے افغان قونصل خانے سے مشاورت کی جائے تاکہ غیر ملکیوں کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
اسی طرح اجلاس میں یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ اگر کسی غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے کو افغانستان کی جانب سے اہم کراسنگ پوائنٹس پر داخلے سے انکار کیا جاتا ہے، تو ان کو متبادل کراسنگ پوائنٹس پر بھیجا جا سکتا ہے۔
افغان حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر پشاور قونصل خانے سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ کی شرط عائد کرنے کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے افغانستان کی نگران حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا، تو ان کا کہنا تھا: ’اس حوالے سے ہمارے پاس تفصیلات نہیں ہیں اور میں اس بارے میں پوچھوں گا۔‘
انہوں نے بتایا، ’افغان پناہ گزین افغانستان آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور یہاں پر ہم ان کو اپنے علاقوں میں پہنچا رہے ہیں۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے افغان قونصل خانے کے نگران قونسل جنرل حافظ محب اللہ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور پیغامات پڑھنے کے باوجود اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت داخلہ کا موقف جاننے کے لیے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے بھی رابطے کی کوشش کی تھی تاہم ان کی جانب سے جواب تاحال موصول نہیں ہوا۔