مجھے تو کبھی لگتا تھا کہ کام مک گیا ہے: عمران ریاض

بچپن کے دوست اور وکیل میاں علی اشفاق کے ویڈیو پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران عمران ریاض خان کا کہنا تھا کہ ’دوران گمشدگی سب سے زیادہ اللہ کی یاد آئی، جب آپ مشکل میں ہوتے ہیں یا پھنس جاتے ہیں تو سب سے جو آپ کے دماغ میں آتا ہے وہ اللہ کی یاد آتی ہے۔‘

عمران ریاض کو 25 ستمبر 2023 کو سیالکوٹ پولیس نے ان کے گھر پہنچایا (ندیم ضعیم ایکس اکاؤنٹ)

پاکستانی اینکر پرسن اور یوٹیوبر عمران ریاض خان نے اپنی گمشدگی اور بازیابی کے بعد پہلی بار اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں جو بات کر رہا تھا وہ اختلاف رائے میں تو آتی تھیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے ٹریٹ کیا جاتا۔‘

اپنے بچپن کے دوست اور وکیل میاں علی اشفاق کے ویڈیو پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران عمران ریاض خان کا کہنا تھا کہ ’دوران گمشدگی سب سے زیادہ اللہ کی یاد آئی، جب آپ مشکل میں ہوتے ہیں یا پھنس جاتے ہیں تو سب سے جو آپ کے دماغ میں آتا ہے وہ اللہ کی یاد آتی ہے۔‘

ایک سوال کہ کمشدگی کا دورانیہ کتنا مشکل تھا کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’آسان تو نہیں ہوتا جن حالات سے آپ گزرتے ہیں۔ اور تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب کوئی اپنا مارتا ہے تو زیادہ درد ہوتا ہے۔

’یعنی کوئی باہر والا مارے تو اتنا محسوس نہیں ہوتا ہے۔ تو یہ چیز مجھے شاید زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ میں کوئی اس ملک کا غدار تو نہیں ہوں، کوئی دشمن ملک کے ساتھ ملا ہوا تھا یا ہتھیار چرائے ہوئے تھے۔‘

سوا گھنٹے کی پوڈکاسٹ کے دوران یوٹیوبر عمران ریاض خان نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں کون لے گیا تھا، کہاں رکھا گیا یا پھر ان کی بازیابی کن شرائط کی بنیاد پر ہوئی۔

عمران ریاض خان نے پوڈکاسٹ کے آغاز میں کہا کہ ’میں کوئی غدار تو نہیں تھا میں نے ملک کے راز تو نہیں چُرائے ہوئے۔ میں دشمن ملک کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے والے عمران ریاض خان نے کہا کہ ’مجھے آج افسوس ہے کہ میں نے کبھی زندگی میں یہ سوچا بھی کہ اگر کوئی غائب ہوا تو وہ کبھی ریاست کے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے۔ نہیں، میں ان سارے لوگوں سے معافی مانگتا ہوں، جن کا دل دُکھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے واضح کیا کہ ’کسی کو غائب کرنے کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی آدمی کتنا بھی بڑا مجرم ہے، آپ اسے قانون کے سامنے لے کر آئیں۔ میں اس کی تکلیف سمجھتا ہوں۔‘

انہوں کے کہ ’جب میں 142 دن گزار رہا تھا تو آخری دن تک مجھے یقین تھا کہ لوگ میرے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے۔ پکا۔ اور میں ایک دعا کیا کرتا کہ یا اللہ جو لوگ میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں ان کی دعائیں قبول کر۔‘

عمران ریاض نے بتایا کہ ’مجھے تو کبھی لگتا تھا کہ کام مک گیا ہے اور اب اس سے زیادہ کیا آگے چلے گا۔ آپ کے سامنے ہی تھا میں۔ زندہ لاش کی طرح تھا جب آپ کو پہلے دن میں ملا ہوں۔ اس سے بھی گئی گزری حالت میری رہی ہے۔ مجھے بعض اوقات لگا کہ یہیں تک تھی کہانی اس کے آگے کوئی اور لکھے گا لیکن رب جانے اس کا کام جانے۔‘

یوٹیوبر عمران ریاض کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں یہ کو 24 گھنٹے ہوتے ہیں ناں وہ بہت طویل ہوتے ہیں، مجھے پہلے پتہ ہی نہیں تھا۔‘

اپنے ساتھ سلوک کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثال قائم ہوئی ہے اور اب دیگر سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کیوں کہ اب اگر ایسا ہی کچھ ہوا تو کوئی اس بارے میں زیادہ فکر مند بھی نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان