سابق وزیر اعظم عمران خان کو رواں برس پانچ اگست کو لاہور کی رہائش گاہ سے توشہ خانہ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی دوران سائفر کیس میں بھی ان کی گرفتاری ڈال دی گئی اور اسی لیے توشہ خانہ سزا معطلی کے باوجود وہ سائفر کیس میں زیر حراست ہیں۔
ان چار ماہ کے دوران سابق وزیر اعظم نے زمان پارک سے اٹک جیل اور اٹک جیل سے اڈیالہ تک کا سفر کیا۔
اٹک جیل میں عمران خان نے سات ہفتے گزارے اور 27 ستمبر کو انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
وکلا کی رسائی تو اٹک جیل میں بھی تھی اور اڈیالہ جیل میں بھی ایسا ممکن ہے، لیکن چند ایک میڈیا کے نمائندوں کو حال ہی میں راولپنڈی میں جیل کے اندر عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جانے کی اجازت دی گئی۔
اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین سے مختصر بات چیت بھی کی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اڈیالہ جیل کے اندر عمران خان سے مختصر ملاقات کرنے والے صحافیوں سے جاننے کی کوشش کی کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم میں کیا فرق دیکھا؟
مقامی میڈیا سے منسلک ثاقب بشیر کورٹ رپورٹر ہیں۔ چار دسمبر کو ہونے والی سماعت میں انہیں بھی اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت جانے کی اجازت ملی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’پانچ اگست سے پہلے عدالتوں میں پیش ہونے والے اور چار دسمبر کو اڈیالہ کی جیل میں موجود عمران خان میں بظاہر کوئی فرق نہیں دیکھا۔ ان میں لچک دیکھی نہ جھکاؤ محسوس ہوا بلکہ میڈیا کو اتنے ماہ بعد اپنے سامنے دیکھ کر انہوں نے وہی تقریر کا سا انداز عدالت میں بھی اپنایا۔‘
ثاقب بشیر نے سماعت کے دوران عمران خان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے بتایا، ’جاگرز، ٹریک ٹراؤزرز، پولو ہائی نیک کے ساتھ ہاتھ میں تسبیح تھامے عمران خان فزیکلی، مینٹلی، مورال وائز فٹ نظر آرہے تھے۔ گفتگو جارہانہ تھی۔ صلح، مذاکرات اور نرم رویہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ ایسے لگ رہا ہے لمبی لڑائی کے لیے خود کو تیار رکھے ہوئے ہیں۔ جیل میں بھی رہنے کے لیے تیار ہیں کوئی فکر نہیں تھی کہ ان کے خلاف جو کیس ہے اس میں ان کو عمر قید یا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔‘
ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور، جو پہلے دن سے اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں، نے دونوں جیلوں میں عمران خان کو دیکھا۔
انہوں نے اندپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جیل سے عمران خان کی تصویر میں صداقت نہیں۔ عمران خان کے حلیے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ پہلے جیسے ہی تندرست اور فریش ہیں۔ عمومی طور پہ وہ ٹریک سوٹ اور سویٹر میں ملبوس ہوتے ہیں۔ رویہ بھی ویسا ہی جیسا گرفتاری سے پہلے تھا۔‘
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے بھی دونوں جیلوں میں پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین سے ملاقات کی تھی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ ابتدائی طور پر اٹک جیل میں عمران خان کو نہایت عامیانہ رہائش دی گئی تھی، جہاں بارش کے بعد پانی بھی آ جاتا تھا جبکہ رات کو پتنگے اور دن کو مکھیاں ہوتی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے ان سب باتوں کی ہم سے شکایت نہیں کی بلکہ وہ ہمیں بتاتے تھے کہ دیکھو یہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن مجھے پھر بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس کے بعد ہم نے درخواست دے کر سابق وزیر اعظم کے شایان شان جیل کا کمرہ تیار کروایا۔ اڈیالہ میں بھی سہولیات مکمل کرائی گئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان اٹک جیل میں بھی جینز شرٹ والے اپنے معمول کے حلیے میں ہوتے تھے۔ اڈیالہ میں بھی معمول کی ڈریسنگ اور کھانا پینا ہے۔ اس لیے وہ جیل میں بھی پراعتماد ہیں۔‘
اٹک جیل میں عمران خان کا کمرہ
ابتدائی طور پر عمران خان کو جس کمرے میں رکھا گیا تھا اس میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن بعد ازاں وکلا کی درخواست پر بہتر کلاس میں کمرہ دیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے وکلا نے ان کو اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کرنے کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی تھی، جس میں ان کا مؤقف تھا کہ اٹک جیل میں اے کلاس کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور عمران خان چونکہ سابق وزیر اعظم ہیں اس لیے انہیں بہتر کلاس میں رکھا جائے۔
وکیل شیر افضل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں اے کلاس نہیں اس لیے وہاں ان کے مؤکل کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ عمران خان کو اٹک جیل میں بیرک کے بجائے ایک سیل میں رکھا گیا۔ اٹک جیل میں عمران خان کو جہاں رکھا گیا وہاں چھت نہیں اور پانی ٹپکتا ہے۔ عمران خان کو رات کو نیند نہیں آتی، وہاں مکھیاں ہیں۔‘
ان شکایات کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو اٹک جیل میں بہتر کلاس دے دی گئی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق ’جیل میں اے اور بی کلاس ختم کر دی گئی ہے۔ جیل میں اب عام اور بیٹر کلاسز موجود ہیں۔ عمران خان کو جیل میں بیٹر کلاس دی گئی ہے۔ عمران خان کو جیل میں جو مسائل تھے وہ دور کر دیے گئے ہیں۔ باتھ روم کا مسئلہ تھا نیا باتھ روم بنا کر اس کی دیواریں اونچی کر کے سفیدی کروائی گئی جبکہ کمرہ بھی بڑا کر دیا گیا۔‘
عمران خان کو اٹک جیل میں دی جانے والی سہولتیں
اگست میں ہی حکومت پنجاب نے عمران خان کو جیل میں دی جانے والی سہولیات سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، جس میں درج تھا کہ ’عمران خان کو ناشتہ میں بریڈ، آملیٹ، دہی اور چائے فراہم کی جاتی ہے، جبکہ ظہرانے اور رات کے کھانے میں پھل، تازہ سبزیاں، دالیں اور چاول مینو کے مطابق فراہم کی جاتی ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اب تک عمران خان کی خواہش پر ہفتے میں دو مرتبہ دیسی چکن ،ایک مرتبہ دیسی گھی میں پکا ہوا گوشت فراہم کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یقین دہانی کرائی گئی کہ جیل انتظامیہ ہائی پروفائل قیدی کو بہترین سہولیات اور سیکورٹی فراہم کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان کو بہتر کلاس قیدی ہونے کی وجہ سے میٹرس، ائیرکولر، چار تکیے، میز اور کرسی بھی فراہم کی گئیں ہیں۔
’انہیں قرآن پاک کے انگلش ترجمعے والے چار نسخے اور 25 تاریخی کتابیں بھی فراہم کی گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ 21 انچ ٹی وی سیٹ اور روزانہ اخبار فراہم کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انہیں روزانہ بیرک، واش روم اور کپڑوں کی صفائی کے لیے سٹاف دیا گیا ہے۔ عمران خان کو پانچ ڈاکٹرز کی ٹیم بھی معائنہ کرتی ہے۔
’عمران خان کو سب سے محفوظ ہائی اور ہائی آبزرویشن بلاک میں رکھا گیا ہے جبکہ ملحقہ بیرکس کو بھی خالی رکھا گیا ہے۔ انہیں رکھے گئے بیرک میں وائٹ واش، پکا فرش اور ایک پنکھے کی سہولت دی گئی ہے۔ ان کی بیرک کا سائز 9×11 مربع فٹ ہے۔ کمرے سے ملحقہ واش روم کی دیوار چھ فٹ اونچی اور واش روم کا سائز 4×7 مربع فٹ ہے۔‘
اڈیالہ جیل میں دی جانے والی سہولیات
عمران خان نو ہفتوں سے اڈیالہ جیل میں ہیں جہاں انہیں انہی کی درخواست پر 27 ستمبر کو منتقل کیا گیا تھا۔
میسر معلومات کے مطابق عمران خان کو ابتدا میں اڈیالہ جیل کے جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ 12 فٹ لمبا اور 10 فٹ چوڑا تھا۔ بعد ازاں عدالتی احکامات کی روشنی میں عمران خان کے سیل کی دیواریں گرا کر انہیں چہل قدمی کی سہولت فراہم کی گئی۔ اب ان کے کمعرے کی لمبائی 80 فٹ اور چوڑائی 60 فٹ ہے۔
عمران خان کی خدمت کے لیے ایک مشقتی بھی مامور ہے جبکہ سیل میں ٹی وی، روزانہ قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور میگزین بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ عمران خان کو سونے کے لیے بیڈ بھی دیا گیا ہے، جبکہ جائے نماز اور قرآن پاک بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
اس کے علاوہ پانچ ڈاکٹر بھی ان کے چیک اپ کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔ عمران خان کی ہمشیرہ نے عدالت میں عمران خان کو ورزش کے لیے سائیکل مہیا کرنے کی درخواست کی تھی جو خصوصی عدالت نے منظور کی تھی اور ان کے گھر سے سائیکل بھی جیل پہنچائی گئی۔
نگران وزیر داخلہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان کو جو سہولیات اڈیالہ جیل میں دی گئی ہیں ایک عام قیدی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔