اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور پاکستان کی ریسرچ کونسل برائے آبی وسائل (پی سی آر ڈبلیو آر) نے چند سال قبل خبردار کیا تھا کہ 2025 تک پاکستان مکمل طور پر آبی بحران کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔
اس صورت حال سے متعلق اقوام متحدہ کے فلاحی رابطہ کار برائے پاکستان نیل بوہنے کا کہنا تھا کہ ’پھر چاہے پانچ ہزار سے زائد گلیشیئرز والے شمالی علاقہ جات ہوں یا تھر کے صحرا، کوئی بھی اس آبی بحران سے نہ بچ سکے گا۔‘
اس وقت پشاور حیات آباد ٹاؤن میں یہ بحران ہر نئے سال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جو کہ دو لاکھ سے زائد نفوس کی آبادی ہے۔ علاقے کے ڈائریکٹر واٹر اینڈ سینیٹیشن نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس امر کی تصدیق کی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے حیات آباد کا پانی ابتدائی 170 فٹ سطح کے بجائے اب 280 فٹ زیر زمین چلا گیا ہے۔‘
پشاور میں زیرِ زمین پانی پر پی ایچ ڈی کرنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عطااللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حیات آباد کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پانی ریچارج کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔‘
’اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو وہ پانی زمین کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ اس علاقے کی سطح کا سخت ہونا اور آبادی میں اضافے کے بعد اس کا بند ہونا ہے۔‘
اسی بات کی مزید تائید کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی سے ’واٹر ریسورسز اینڈ کلائمٹ چینج‘ کے ڈگری یافتہ آصف خان، جو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے وابستہ ہیں اور متذکرہ موضوع پر بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حیات آباد میں جس تیزی سے تعمیراتی کام ہوتا رہا اسی تیزی سے ریچارج زون ختم ہونا شروع ہوا۔
’دوسری بات یہ ہے کہ باوجود ایک منظم ٹاؤن ہونے کے، اس ٹاؤن میں ابھی تک واٹر میٹر سسٹم متعارف نہیں ہوا۔ فکس بل آتا ہے، پانچ، دس اور کنال گھر کے حساب سے۔ اگر واٹر میٹرنگ ہو گی تو لوگ پانی ضائع نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بڑے ٹاؤن ہوں یا چھوٹے، شہری علاقے ہوں یا دیہاتی، نہ صرف وہاں پانی ری سائیکلنگ بلکہ ’رین واٹر ہارویسٹنگ‘ بھی کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر آصف خان نے کہا کہ اگر حکومت اور بڑے بین الاقوامی ادارے ان دو طریقوں کو عوام میں متعارف کرائیں تو اس سے پانی کی بہت حد تک بچت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر آصف خان اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جبہ اور مہمند ڈیم بن گئے تو صرف ان دو ڈیموں میں بھی اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ گھروں میں فراہمی سمیت ایریگیشن کی کمی بھی پوری کر سکتے ہیں۔
حیات آباد پشاور میں ایک صنعتی زون بھی قائم ہے، اور جہاں کی ’کارخانو مارکیٹ‘ پورے پاکستان میں غیر ملکی سامان کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ اس ٹاؤن کو مقامی طور پر ’پشاور کا اسلام آباد‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ پشاور میں اپنی نوعیت کا ایک جدید، منظم، اور خوبصورت انفراسٹرکچر اور سہولیات کا حامل علاقہ ہے۔
70 کی دہائی میں بننے والا حیات آباد گزشتہ 40 سال کے عرصے میں مکمل طور پر آباد ہو گیا ہے، اور اس میں بڑے سرکاری ہسپتال، کالج ، سٹیڈیم، نجی یونیورسٹیاں، سٹور سمیت دیگر عمارتیں نہ صرف اس ٹاؤن بلکہ خیبر پختونخوا اور افغانستان کے باشندوں کی ضروریات بھی پوری کر رہی ہیں۔
تاہم پانی کی آئے دن عدم دستیابی اس علاقے کے رہائشیوں کو پریشان رکھتی ہے جب کہ پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کی جانب سے پانی کا بل مقررہ وقت پر آتا ہے۔
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا موقف
انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں جب پی ڈی اے کے ڈائریکٹر واٹر اینڈ سینیٹیشن اشراف قادر سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حیات آباد میں ہر سال پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے جو کہ حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ دیگر حقائق بھی ہیں جس کا ذکر کرنا وہ اہم سمجھتے ہیں۔
اشراف قادر نے بتایا کہ حیات آباد ٹاؤن میں تقریباً 19 ہزار گھر ہیں، جن کے لیے 90 ٹیوب ویل بنائے گئے ہیں۔ ’یہ 90 ٹیوب ویل روزانہ 13 سے 14 ملین گیلن پانی پیدا کر کے دس گھنٹے فراہمی جاری رکھتے ہیں اور ہم اس مسلسل فراہمی کا بل چارج کرتے ہیں۔‘
انہوں نے ایک اور اہم نکتے کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ حیات آباد کی زمین ہر جگہ یکساں نہیں ہے، جس کی وجہ سے پانی کے دباؤ میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے۔ ’پانی کی مسلسل کمی کی کئی وجوہات ہیں، جیسے کہ نلکا ٹینکی کے علاوہ کئی دیگر مقامات پر نصب کرنا، ایک گھر میں چار یا چھ کی بجائے دس اور 20 افراد کا رہنا شامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پانی کا ضیاع بھی بہت کیا جاتا ہے، ایسے میں کمی کیسے پوری ہو؟‘
ڈائریکٹر واٹر اینڈ اینڈ سینیٹیشن کا مزید کہنا ہے کہ ایک نیا چیلنج بازار میں غیر قانونی طور پر فروخت ہونے والا پانی کھینچنے کا آلہ بھی ہے، جس کا سدباب کرنے میں فی الحال حکام ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ صوبائی حکومت کے احکامات پر پشاور میں پانی کا بحران ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ جبہ ڈیم کے منصوبے پر آج کل تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ’گریٹر واٹر سپلائی سکیم میں مہمند، جبہ اور باڑہ ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔ مہمند ڈیم سے ہمیں 254 ملین گیلن پانی، جبہ اور باڑہ ڈیم سے کل ملا کر چالیس ملین گیلن پانی ملے گا، جس کے بعد حیات آباد کو 24 گھنٹے پانی کی فراہمی ہو سکے گی۔ یہ ڈیم تعمیر ہونے میں تقریباً پانچ سال لگیں گے۔‘
عالمی مالیاتی بینک (آئی ایم ایف) کے مطابق، پاکستان پانی کے شدید بحران سے دوچار ممالک کی صف میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق بڑھتے ہوئے سیلابوں، غیر متوقع بارشوں اور خشک سالی کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کے پانی پر تیزی سے مرتب ہونے والے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی ’آبی کانفرنس 2023‘ میں یہ بات سامنے لائی گئی کہ دراصل دہائیوں سے جاری بدانتظامی، آبادی میں اضافے اور پانی کے ضیاع نے قلت میں اضافہ کر دیا ہے۔
کانفرنس میں حکومتوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے اٹھائی جانے والی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے دنیا بھر کے شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا کہا گیا۔