ہرنوں کی ’زومبی‘ بیماری انسانوں کو منتقل ہوسکتی ہے: تنبیہ

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بیماری ’آہستہ آہستہ پھیلنے والی تباہی‘ ہے۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بیماری کے انسانوں میں منتقلی کے امکان کے لیے تیار رہیں۔

امریکی ریاست وائیومنگ میں ہرن، ایلک (ہرن کی ایک قسم) اور موس (ہرن کی ایک قسم) کے آٹھ سو نمونوں میں کرونک ویسٹ ڈیزیز (سی ڈبلیو ڈی) پائی گئی ہے (پیکسلز)

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ’زومبی ڈیئر کی بیماری‘ انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہے کیوں کہ گذشتہ سال امریکہ میں سینکڑوں جانور اس بیماری سے متاثر ہوئے۔

امریکی ریاست وائیومنگ میں ہرن، ایلک (ہرن کی ایک قسم) اور موس (ہرن کی ایک قسم) کے آٹھ سو نمونوں میں کرونک ویسٹ ڈیزیز (سی ڈبلیو ڈی) پائی گئی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا جانور کی رال بہتی ہے۔ سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں، لڑکھڑاتے ہیں ہیں اور خالی نظروں کے ساتھ گھورتے ہیں۔

تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بیماری ’آہستہ آہستہ پھیلنے والی تباہی‘ ہے۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بیماری کے انسانوں میں منتقلی کے امکان کے لیے تیار رہیں۔

سی ڈبلیو ڈی کے محقق ڈاکٹر کوری اینڈرسن نے اخبار دا گارڈین کو بتایا: ’برطانیہ میں میڈ کاؤ کا مرض پھوٹ پڑنا اس بات کی مثال ہے کہ جب مرض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے حالات راتوں رات بگڑ سکتے ہیں۔

’ہم کچھ ایسا ہی ہونے کے امکان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ایسا یقینی طور پر ہونے جا رہا ہے لیکن لوگوں کا تیار رہنا اہم ہے۔‘

برطانیہ میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں میڈ کاؤ کی بیماری پھیلنے کے بعد 44 لاکھ مویشیوں کو ذبح کر دیا گیا۔ مرض کی وجہ یہ تھی کہ گائے کو وہ خوراک دی جا رہی تھی جس میں وائرس سے متاثرہ گوشت اور ہڈیاں شامل تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بیماری جو عام طور پر مویشیوں کے لیے جان لیوا ہوتی ہے، ان کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے اور جانوروں میں جارحانہ رویے کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی حرکات وسکنات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ 1995 سے اب تک وائرس کے انسانی ویریئنٹ کا شکار ہو کر 178 لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

الائنس فار پبلک وائلڈ لائف کے مطابق 2017 میں لوگ ہر سال سی ڈبلیو ڈی سے متاثر سات سے 15 ہزار جانور کھا رہے تھے۔

ان اعداد و شمار میں سالانہ 20 فیصد اضافے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر اینڈرسن نے کہا کہ وسکونسن میں ہزاروں افراد ممکنہ طور پر متاثرہ ہرن کا گوشت کھا چکے ہیں۔

ماحول کے متاثر ہونے کے بعد سی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس بیماری کا وائرس مٹی میں یا مختلف سطحوں پر کئی سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیماری کا وائرس جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے اور فورمل الڈیہائیڈ نامی گیس تابکاری، چھ سو درجے سیلسیئس (11 سو فارن ہائٹ) درجہ حرارت پر جلائے جانے کے عمل کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی جنک گو بائیو ورکس نے خبردار کیا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں 2020 کے مقابلے میں 2050 میں 12 گنا زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی سے مستقبل میں جانوروں کی بیماریوں کے انسانوں کو منتقل ہونے کے نتیجے میں وبائی امراض کے واقعات بڑھ جائیں گے۔

کمپنی کی تحقیق کے مطابق 1963 اور 2019 کے درمیان وبائی امراض میں ہر سال تقریباً پانچ فیصد اور اموات میں نو فیصد اضافہ ہوا۔

کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر یہ سالانہ اضافہ جاری رہا تو ہم توقع کریں گے کہ جن جراثیم کا تجزیہ کیا گیا ہے ان کی 2020 کے مقابلے میں 2050 میں انسانوں میں منتقلی کے واقعات میں چار گنا اور اموات میں 12 گنا اضافہ ہو جائے گا۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت