1942 میں ایک 13 سالہ لڑکا ایبٹ آباد میں اپنے تحصیلدار والد کے دفتر گیا تو وہاں دیکھا کہ مسلمان زمینیں بیچ رہے ہیں اور ہندو خرید رہے ہیں۔
لڑکے کے ذہن پر اس کا بڑا اثر ہوا اور اس نے اس واقعے کے بعد سوچنا شروع کر دیا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی کے بعد ’میں نے سوچنا شروع کیا کہ پاکستان، جس کی تحریک ان دنوں زوروں پر تھی، کیسے ترقی کر سکتا ہے۔‘
یہ سرتاج عزیز تھے جن کا گذشتہ روز 95 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ سرتاج عزیز ماہر معاشیات، سینیٹر، سابق وزیر خارجہ اور پاکستان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے اپنی سوانح عمری ’ڈریمز اینڈ ریئلیٹی‘ میں لکھا ہے کہ والد کے دفتر میں دیکھی جانے والی صورتِ حال کے بارے میں جب انہوں نے اپنے والد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مسلمان فضول خرچ ہیں اور وہ پیسے ضائع کرتے ہیں جبکہ ہندو ان کی زمینیں خرید رہے ہیں۔‘
کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کی ایک آن لائن تقریب میں سرتاج عزیز نے پاکستان بننے سے پہلے کی کہانی سنائی، جب قرارداد پاکستان پیش کی گئی اور اس کے بعد 1946 میں آل پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کے لیے ووٹنگ ہوئی۔
سرتاج عزیز کے مطابق اس وقت وہ اسلامیہ کالج لاہور میں انٹر کے طالب علم تھے اور انہوں نے آل مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی، جو آل پاکستان مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم تھی۔
انہوں نے بتایا: ’اس وقت ہم نے طلبہ اور نوجوانوں کو متحرک کرنا شروع کیا۔ کالج کی جانب سے ہمیں بیچلر امتحان دینے سے پہلے ڈیٹینشن امتحان نہ دینے کی رعایت دے دی گئی تاکہ ہم اپنا کام جاری رکھ سکیں اور یوں اس وقت 1200 طلبہ نے گھر گھر جانے کی مہم شروع کردی۔‘
اس زمانے میں ہندؤں نے مسلمانوں کو بہت قرضے دے رکھے تھے اور سرتاج عزیز کے مطابق وہ مسلمانوں کو ہندؤں کے قرضے سے آزادی دلوانے کے لیے متحرک کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: ’ہم نے چھ، آٹھ اور 10 طلبہ کے گروپ مختلف حلقوں میں بھیج دیے اور اسی کی بدولت ہم نے تقریباً 85 فیصد نشستیں جیتیں اور یہ ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔‘
سرتاج عزیز کی محنت اور انتھک محنت کی وجہ سے ان سمیت چند طلبہ کو ’مجاہد پاکستان‘ کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔
سرتاج عزیز اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’ہم ہر سال جون میں پشاور جاتے تھے اور تین جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے پاکستان کے ایک آزاد اور خود مختار ملک بننے کے اعلان کو میں کبھی نہیں بولوں گا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’اس سال پشاور میں جو گھر ہم نے کرائے پر لیا تھا، وہاں بجلی کا کنیکشن نہیں لگا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائد اعظم اور دیگر کی تقاریر سننے کے لیے ہم نے پڑوسی سے درخواست کی کہ ہم ان کے گھر جا کر ریڈیو پر یہ تقاریر سن سکیں اور ہمیں اجازت مل گئی تھی۔‘
سرتاج عزیز نے ’پاکستان کو بنتے دیکھا ہے‘ اور تقسیم ہند سے پہلے زمانہ طالب علمی میں قائد اعظم سے تین ملاقاتیں بھی کیں۔
قائداعظم کی جانب سے انہیں ’معمارِ پاکستان‘ بننے کی ترغیب ملنے کے بعد انہوں نے معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کا تہیہ کیا تاکہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی معاشی صورت حال کو ٹھیک کرنے میں کردار ادا کر سکیں۔
سرتاج عزیز مغربی ہندوستان کے صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) کے ضلع مردان میں 1929 میں پیدا ہوئے تھے اور انہیں لڑکپن سے ہی سیاست کا شوق تھا۔
سرتاج عزیز نے اپنی سوانح عمری ’ڈریمز اینڈ ریئلیٹی‘ میں لکھا کہ کم عمری میں قائداعظم سے ملاقاتوں کی وجہ سے وہ وقت سے پہلے میچور ہوگئے تھے اور ان کی سیاسی بصیرت بہتر تھی۔
انہوں نے لکھا کہ جب وہ چار سال کے تھے تو والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے، اس کے بعد سوتیلی والدہ نے خیال رکھا لیکن ان سے ایک سال بڑی بہن نے ان کی ذہنی رہنمائی کی۔
انہوں نے پرائمری تعلیم چارسدہ سے، ساتویں کلاس ایبٹ آباد سے، مڈل سکول ہری پور، اور میٹرک ڈیرہ اسماعیل خان سے کیا۔
سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ ان کے والد، جو اسلامیہ کالج پشاور کے پہلے گریجویٹس میں شامل تھے، انہیں اسلامیہ کالج پشاور بھیجنا چاہتے تھے لیکن بہن کی وجہ سے انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا کیونکہ اس وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں لڑکیوں کے لیے کوئی کالج نہیں تھا۔
بعدازاں ہیلے کالج، لاہور سے کامرس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد سرتاج عزیز نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا اور پہلی پوسٹنگ پشاور کے انفارمیشن ڈیپارمنٹ میں ہوئی لیکن اس کے بعد جنرل سپیریئر سروس جوائن کی اور ملٹری میں اکاؤنٹ دفتر میں بھرتی ہوگئے۔
اس کے بعد وہ 60 کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں پلاننگ کمیشن میں بطور جوائنٹ سیکریٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔
سرتاج عزیز اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیں کہ ’1965 میں آپریشن جبرالٹر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ایک مس ایڈونچر تھا، جس کے تحت ’فریڈم فائٹرز‘ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر بھیجا گیا تھا تاکہ کشمیر کو آزاد کروایا جاسکے۔‘
سرتاج عزیز کے مطابق: ’میں نے اس آپریشن کی مخالفت کی تھی اور بعد میں اس آپریشن کی وجہ سے پاکستان کو سخت معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘
سیاسی سفر
اقوام متحدہ کے ایگری کلچر ادارے میں 1980 تک خدمات سرنجام دینے کے بعد سرتاج عزیز پاکستان لوٹ آئے اور 1984 میں جونیئر وزیر برائے زراعت بنائے گئے اور 1988 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے سرتاج عزیز 1988 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں سینیٹر منتخب ہوئے۔
اس کے بعد 1990 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا اور نواز شریف ہی کے دور میں 1998 میں وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئے۔
اس دوران سرتاج عزیز نے 1998 میں پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کی اس وجہ سے مخالفت کی تھی کہ اس سے پاکستان پر عالمی پابندیاں لگ سکتی ہیں لیکن کچھ سال بعد انڈیا کے کردار کو دیکھتے ہوئے ان کے موقف میں تبدیلی آئی اور انہوں نے ایٹمی دھماکوں کی حمایت کی۔
نواز شریف کو 1999 میں اقتدار سے ہٹانے کے بعد سرتاج عزیز نے تعلیم کے میدان میں قدم رکھ دیا اور 2004 میں بیکن ہاؤس یونیورسٹی جوائن کی اور بعد میں اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔
اس کے بعد پاکستان میں شدت پسندی نے سر اٹھانا شروع کردیا اور ملک بھر میں 2007 کے بعد بم دھماکوں کاسلسلہ شروع ہوا، جب وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بنیاد رکھی گئی۔
اس کے بعد 2013 میں نواز شریف نے جب وفاق میں حکومت بنائی تو ملک میں بڑھتی ہوئی بد امنی کو کنٹرول کرنے کے لیے سرتاج عزیز کو مشیر برائے قومی سلامتی بنایا گیا۔ ان کے دور میں مختلف فیصلے لیے گئے جس میں آرمی پبلک سکول حملے کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو کنٹرول کرنے کے لیے باڑ لگانا بھی شامل ہے۔
قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے میں بھی سرتاج عزیز کا کلیدی کردار رہا ہے کیونکہ وہ فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ تھے۔
قبائلی اضلاع کو ضم کرنے کے حوالے سے سرتاج عزیز نے ’دی نیشن اخبار‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو سب سے پہلے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا منصوبہ 1977 کے انتخابات سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔
انہوں نے لکھا: ’اس وقت جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں کمیٹی بنی تھی، جس میں حفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور مبشر حسن بھی شامل تھے لیکن 1977 میں مارشل لا لگنے کے بعد اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔‘
سرتاج عزیز کے مطابق: ’میری سربراہی میں بنی کمیٹی نے 2016 میں یہ تجاویز دیں کہ قبائلی علاقوں کو پانچ سال کے عرصے میں مرحلہ وار خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے اور وہاں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں اور 2018 کے عام انتخابات میں قبائلی اضلاع کو صوبائی اسمبلی میں حصہ دیا جائے۔‘
عالمی خدمات
سرتاج عزیز نے 1971 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگری کلچر میں شمولیت اختیار کی تھی اور سرتاج عزیز کی ہی بدولت اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ روم میں ایک عالمی فوڈ کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگری کلچر کا اجرا ہوا تھا اور 1978 میں وہ اسی ادارے کے سربراہ بھی بنے۔
سرتاج عزیز 1978 میں انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ سوسائٹی کے رکن بھی بنے۔ اس دوران ان کی ایک کتاب ’رورل ڈیویلپمنٹ: لرننگ فرام چائنہ‘ کو خوب پذیرائی ملی تھی۔
یونیسکو کی ایکو ٹیکنالوجی کے پروفیسر ایم ایس سوامیناتھ کے مطابق سرتاج عزیز کی جانب سے چین کی دیہی ترقی کا جو تجزیہ کیا گیا، اس کی وجہ سے مختلف ترقی یافتہ ممالک کو فائدہ ہوا اور بعض ممالک نے تو کتاب کی وجہ سے اپنی پالیسیوں میں بھی تبدیلی کی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔