1990 کی دہائی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نقل مکانی کرکے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آباد نوجوانوں نے یہاں کی پاکستانی شہریت رکھنے والی خواتین سے شادیاں کیں۔
300 سے زائد خواتین 2010 کے بعد اپنے شوہروں کے ہمراہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئیں، جہاں انہیں ان کے شوہروں کی وفات یا طلاق ہوجانے کے بعد شدید مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے جانے والی خواتین نے جب اپنے والدین سے ملنے یا مستقل طور پر واپس آنے کے لیے کوشش کی تو ان کے پاس سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں پھنس کر رہ گئیں، ان خواتین اور ان کے اہل خانہ کے مطابق انہوں نے پاکستانی حکام سے اس معاملے پر متعدد رابطے کیے لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں کی گئی۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ان خواتین نے انڈین حکام سے بھی واپسی کے لیے متعدد درخواستیں کی ہیں، لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی۔ ان خواتین نے ایک تنظیم بھی قائم کرکے اپنی واپسی کے لیے جدوجہد کی ہے لیکن دونوں ممالک کے حکام اس معاملے پر کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا رہے۔
مظفرآباد کی کبریٰ گیلانی ان ساڑھے تین سو سے زائد خواتین میں شامل ہیں، جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے ککر ناگ میں گذشتہ نو سال سے موجود ہیں اور واپس آنے کی کوششیں کر رہی ہیں، لیکن سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ واپس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نہیں آ سکتیں۔
ان کے والد بیٹی کی جدائی کے دوران دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ ان کی عمر رسیدہ والدہ پروین بی بی کئی سالوں سے بیٹی کی واپسی کی منتظر اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔
کبریٰ گیلانی کی شادی الطاف احمد نامی شخص سے 2010 میں ہوئی اور 2014 میں اس وقت کی انڈین حکومت کی خاموش رضا مندی کے ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ طرف سے علاقہ چھوڑ کر جانے والوں کے لیے واپس آنے پر عام معافی کی پیشکش کے بعد کبریٰ گیلانی اپنے شوہر کے ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے ککر ناگ میں ان کے آبائی گھر چلی گئیں، جہاں انہیں دو سال بعد شوہر کی جانب سے طلاق کا سامنا کرنا پڑا۔
طلاق کے بعد کبریٰ کے لیے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنا ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ پروین گیلانی کے مطابق انہیں اپنی بیٹی کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر جانے کا علم اس وقت ہوا جب ان کا داماد ان کی بیٹی کو لے کر وہاں جا چکا تھا۔
بیٹی کے جانے کے دو سال تک ان کی اپنی بیٹی سے بات نہیں ہو پائی، جب دو سال بعد موبائل فون پر ان کی بات کبریٰ سے ہوئی تو انہیں اس بات کا پتہ چلا کہ ان کی بیٹی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے اور اب وہ انڈین کشمیر میں بے سہارا ہے، جس کے پاس کوئی سفری کاغذات بھی موجود نہیں، جن کی بدولت وہ واپس اپنے گھر واپس آسکے۔
اپنی بیٹی کے حالات کا علم ہونے کے بعد پروین اور ان کے شوہر، جو اس وقت زندہ تھے، نے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انہیں اپنی بیٹی کی واپسی کی امید مل سکتی تھی۔
پروین گیلانی کے مطابق انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سے ملاقات کی اور انہیں درخواست دی کے ان کی بیٹی کی واپسی کے لیے حکومت ان کی مدد کرے۔
پروین نے روتے ہوئے بتایا کہ راجہ فاروق حیدر نے ان کی دی گئی درخواست پھاڑ کر پھینک دی اور انہیں وہاں سے جانے کو کہا۔ وزیراعظم کے مایوس کن رویے کے بعد پروین اور ان کے شوہر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات دیگر حکام اور پھر بعد ازاں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے سامنے پیش ہونے کی ٹھانی، جس میں بقول ان کے وہ کامیاب بھی رہیں، لیکن عمران خان سے ملاقات کے باوجود حکومت پاکستان نے ان کی بیٹی کی واپسی کے لیے کوئی بھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پروین نے بتایا کہ وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکی ہیں جبکہ ان کے شوہر اپنی بیٹی کی جدائی کے غم میں تڑپتے، بیٹی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی حسرت لیے دو سال پہلے دنیا سے چلے گئے۔
پروین کے مطابق ان کی بیٹی کبریٰ نے بھی اپنے طور پر مختلف پلیٹ فارمز پر کوشش کی ہے کہ انہیں انڈین یا پاکستانی حکومت دستاویزی ثبوت/پاسپورٹ جاری کرے، جن کی بدولت وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آسکیں۔
پروین کے مطابق ان کی بیٹی پاکستانی ہائی کمیشن کی سابقہ ڈائیریکٹر فوزیہ حبیب سے بھی ملیں اور واہگہ بارڈر پر بھی ایک مہینہ قیام پذیر رہیں لیکن دونوں حکومتوں کی طرف سے انہیں نظر انداز کیا گیا، جس کے بعد وہ دوبارہ ککر ناگ چلی گئیں۔
ایک طرف جہاں پروین اپنی بیٹی کو واپس اپنے وطن لانے کے لیے بےتاب ہیں، وہیں انہیں یہ فکر بھی کھائے جا رہی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ان کی بیٹی کے پاس کوئی بھی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جا رہا۔
پروین کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی بیٹی دارالامان میں مقیم ہیں جبکہ ان کی صحت بھی دن بدن ابتر ہو رہی ہے۔
پروین کے مطابق ان کی اپنی بیٹی سے بذریعہ وٹس ایپ بات ہوتی ہے جس سے وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کو فون پر دیکھ سکتی ہیں لیکن فون پر ہونے والی یہ بات مختصر ہوتی ہے اور بسا اوقات مہینوں گزر جانے کے بعد بات کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے ککر ناگ سے کبریٰ گیلانی نے (بذریعہ وٹس ایپ ویڈیو کال) انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ وطن واپس آنے کے لیے بے حد بے تاب ہیں اور اپنی والدہ اور اپنے خاندان کو بہت یاد کرتی ہیں۔
کبریٰ کے مطابق وہاں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ اکثر بندش کا شکار رہتا ہے، تب انہیں مہینوں اپنی والدہ سے بات کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کبریٰ کے مطابق اس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ان جیسی 300 سے زائد خواتین موجود ہیں جو عام معافی کے اعلان کے بعد اپنے شوہروں کے ساتھ وہاں آئی تھیں لیکن شوہروں کی وفات یا طلاق کے بعد وہ سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں جاسکیں اور اب وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پھنسی ہوئی ہیں۔
بقول کبریٰ انہوں نے اور ان جیسی خواتین نے یہاں ہر جگہ اپنی واپسی کے حوالے سے درخواستیں دیں لیکن کوئی سنوائی نہیں کی گئی، نہ ہی انہیں سفری دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سری نگر سے تعلق رکھنے والے ناصر قادری ایڈوکیٹ سے بات کی، جو سری نگر بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبر بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت لیگل فورم آف کشمیر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ناصر کے مطابق وہ کبریٰ اور ان جیسی کئی خواتین کے کیس سے واقف ہیں اور ان میں سے کئی خواتین سے مل بھی چکے ہیں۔
ایڈوکیٹ ناصر کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے تو انڈین حکومت کی 2010 میں اعلان کی گئی ’ملیٹنٹ ری ہیبی لیٹیشن پالیسی‘ اور اس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی جانب سے دی جانے والی عام معافی (جس کے تحت انڈین کشمیر سے پاکستانی کشمیر آئے افراد بنا کسی دستاویز کے واپس لوٹے) دونوں عمل ہی سراسر غلط تھے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن اس وقت کی انڈین حکومت اس عمل پر رضامندی سے خاموش رہی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جب انڈیا کی حکومت خاموش رہی تو مطلب انہوں نے اس عمل کو تسلیم کیا لیکن اس کے بعد واپس جانے والے ان لوگوں کو انہوں نے اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے ملک دشمن کو دیکھتے ہیں۔‘
ایڈوکیٹ ناصر قادری نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین حکومت کا ان خواتین کے ساتھ روا رکھا گیا طرزِ عمل غیر انسانی ہے، بین الاقوامی قانون ہر معاملے میں انسانی ہمدردی کے تحت خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی رعایت دیتا ہے جبکہ انڈیا خود کو دنیا کے سامنے ایک ایسی ریاست ظاہر کرتا ہے جو انسانی حقوق کی علمبردار ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔‘
انہون نے مزید بتایا: ’اس وقت 300 سے زائد خواتین، جن کا دستاویزی ریکارڈ نہ تو حکومت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بلکہ انڈین حکومت کے پاس بھی موجود نہیں، وہاں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہ رہی ہیں۔‘
ناصر کے مطابق انڈیا ان کے ساتھ جو برتاؤ رکھ رہا ہے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں لیکن پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتیں بھی اس معاملے میں اتنی سنجیدگی نہیں دکھا رہیں جتنی دکھانی چاہیے۔
ایڈوکیٹ ناصر نے ان خواتین کی واپسی کے قانونی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’قانون کے مطابق تو انڈیا یا پاکستان انہیں سفری دستاویزات/پاسپورٹ جاری کرے گا تو قانونی طور پر یہ خواتین بین الاقوامی سفر کی اہلیت رکھتی ہیں لیکن انڈیا یا پاکستان ایسا نہیں کر رہا۔ اب اگر ان خواتین کی واپسی کی کوئی راہ بچتی ہے تو وہ ہے سفارتی سطح پر دونوں حکومتوں کی آپس میں انڈرسٹینڈنگ۔‘
ناصر کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور انڈیا کی حکومتیں ماضی میں کئی بار ایسے معاملات طے کر چکی ہیں جن میں قانون کی کوئی عملداری نہیں رکھی گئی جیسے سیز فائر لائن کا معاہدہ اور کشمیر بس سروس، تو ایسی ہی انڈرسٹینڈنگ کرتے ہوئے جذبہ خیر سگالی کے طور پر ان خواتین کو واپس اپنے ملک بھیجا جا سکتا ہے، اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘
ایڈوکیٹ ناصر قادری کے مطابق: ’واپس لوٹ جانے والے کشمیریوں کی بیویوں میں سے 300 سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر وفات پا گئے یا انہیں طلاق دے دی گئی اور اب وہ خواتین انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پھنس چکی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہیں نہ تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کشمیر کارڈ جاری کر رہی ہے اور نہ ہی انڈین پاسپورٹ اور حکومت پاکستان بھی ان کو پاسپورٹ جاری کرنے سے گریزاں ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔