کشمیری پھیرن کا ارتقا جن سیاسی اور موسمی حالات کے پر آشوب دور سے گزرا ہے، اس کے پیش نظر اس ملبوس کا عالمی فیشن شوز میں مقبولیت حاصل کرنا نہ صرف تاجروں کے لیے خوشخبری ہے بلکہ تہذیب اور وراثت کو دنیا سے متعارف کروانے کے باعث کشمیر کے لیے باعث فخر بھی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
امریکہ، برطانیہ اور بعض دوسرے ملکوں میں چند برسوں سے بعض کشمیری تاجر خواتین نے پھیرن کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں اہم کردار کیا ہے اور یہ اب بڑے بازاروں کی زینت بنتا جا رہا ہے۔
پھیرن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 21 دسمبر 2023 کو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیرن کا بین الاقوامی دن منایا گیا۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے اس لباس کے خریدار پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں، وادی میں ملبوسات کی تجارت سے منسلک بیشتر تاجروں کو اب گھر بیٹھے آرڈر مل رہے ہیں اور ان کی خرید و فروخت یا ترسیل اب کافی آسان ہو گئی ہے۔
سری نگر کے تاجر محمد مبشر کہتے ہیں کہ ’سری نگر کے بعد انہوں نے دہلی میں کشمیری ملبوسات کی دکان کھولنے کا ارادہ کیا تھا مگر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ان کی فروخت بڑی تعداد اور کم وقت میں ہو رہی ہے، دکان کی ضرورت اب نہیں رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارا پروڈکٹ دور دور تک پہنچ جاتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ آرڈر بیرونی ملکوں سے موصول ہو رہے ہیں اور ادھار کا رسک بھی نہیں ہے۔‘
کشمیری پھیرن اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جہاں انڈیا میں وزیراعظم مودی نے سری نگر میں پھیرن پہن کر کشمیر کی ثقافت کا احساس دلایا، وہیں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی چند برس پہلے پھیرن پہن کر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پچھلے سال کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کشمیر میں پھیرن پہن کر اپنی ’بھارت جوڑو‘ یاترا مکمل کی تھی۔
اس پھیرن کی عجیب داستان ہے۔ بعض مورخ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ اکبر نے، جنہیں کشمیر کو زیر کرنے پر شدید مزاحمت کا سامنا تھا، کشمیریوں کو ایسی لمبی پوشاک پہننے پر مائل کروایا تھا تاکہ وہ کاہلیت کا اس قدر شکار ہوں کہ کھڑا ہونے میں بھی سستی محسوس کریں۔
جب پھیرن نے اتنی سستی پیدا نہیں کی کہ مزاحمت رک جاتی تو شہنشاہ اکبر نے کشمیری بادشاہ یوسف شاہ چیک کو 16ویں صدی کے اختتام پر چکمہ دے کر آگرہ بلایا، انہیں اسیر کر کے بہار پہنچا دیا اور چند فوجی جنرلوں کی مدد سے کشمیر کی سلطنت کو اپنی بادشاہت کا حصہ بنا دیا۔
یوسف شاہ چیک دوران حراست انتقال کر گئے اور ان کی محبوبہ معروف شاعرہ حبہ خاتون ان کی جدائی کے غم میں وادی وادی بھٹکتی رہیں۔
اکثر کشمیری شہنشاہ اکبر کو غاصب حکمراں کے طور پر یاد کرتے ہیں، جنہوں نے ان کی مملکت چھین کر انہیں ہمیشہ کے لیے غلام بنا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وادی میں پھیرن کا رواج پہلے سردیوں تک محدود تھا مگر پھر یہ گرمی کے موسم میں بھی پہنا جانے لگا۔ جب اس پر بیل بوٹے، کشیدہ کاری، تلہ سازی یا سنہرے تاروں کے ڈیزائن بنائے جانے لگے تو یہ خواتین کی معمول کی پوشاک بن گئی۔
پھیرن کے اندر شدید سردی سے بچنے کے لیے اکثر کانگڑی تاپی جاتی ہے جو یقیناً ایک ایسی کیفیت پیدا کرتی ہے کہ اٹھنے میں کوفت کے ساتھ انسان سست بھی ہو جاتا ہے۔ شاید شہنشاہ اکبر کو کانگڑی تاپنے کا راز کسی نے نہیں بتایا تھا۔
پھیرن کو وسط ایشیا کے علمائے دین سے بھی جوڑا جاتا ہے جنہوں نے 14ویں صدی میں دین اسلام کے متعارف کروانے کے وقت کشمیریوں کو لمبی پوشاک پہننے کی صلاح دی تھی، مگر لداخ کا چوغہ یا کشمیری پنڈتوں کا لمبا لباس بھی پھیرن جیسا ہی ہے۔
اکثر مورخ کہتے ہیں کہ یہ ملبوس زمانہ قدیم سے اس خطے میں رائج تھا۔ اس میں مذہب و سیاست کا کوئی دخل نہیں رہا ہے، شدید سردی والے علاقوں میں لمبی گرم پوشاک پہننے کی ضرورت موجود رہتی ہے۔
لیکن افغانوں پر الزام ہے کہ انہوں نے کشمیر پر حکمرانی کے دوران مردوں کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے انہیں عورتوں والی پوشاک یعنی پھیرن پہننے پر مجبور کر دیا جو اس وقت تک صرف خواتین کا لباس ہوا کرتا تھا۔
کشمیری پھیرن 1990 کی دہائی کے بعد خبروں کی زینت بنا، جب سکیورٹی فورسز نے بارہا لوگوں کی تلاشی لینے کے وقت پھیرن اتارنے کا حکم دیا۔
کچھ عرصہ قبل پھیرن پہننے پر پابندی عائد کرنے کی خبر بھی آئی تھی جب وادی میں ٹارگٹ کلنگ کے کچھ واقعات پیش آئے تھے۔
برطانیہ میں گذشتہ برس کے کشمیری پھیرن کے فیشن شو کے بعد ان کی خریدو فروخت میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سال امریکہ کے شہر نیو یارک میں یہ شو منعقد ہوا، جس میں فیشن سے وابستہ بیشتر تاجروں نے حصہ لیا ہے۔
امریکہ میں آباد نوشین گوجواری جنہوں نے اس شو کا آغاز کیا تھا، کہتی ہیں کہ ’لندن کے بعد کولمبیا یونیورسٹی کی کچھ طالبات نے مجھے مشورہ دیا کہ ہم کشمیری ملبوسات بالخصوص پھیرن کا ایک فیشن شو امریکہ میں معنقد کریں۔ جب ہم نے یونیورسٹی میں عوام کی دلچسپی دیکھی تو پھر ہم نے نیویارک کے مین ہیٹن میں فیشن شو کی ایک بھرپور تقریب منعقد کی۔ تجارت تو بڑھ گئی مگر اس سے ہماری وراثت کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی بھی دیکھی گئی، ہمیں پھر اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑا، امریکی خواتین کو یہ لباس بہت پسند آیا۔‘
گو کہ یورپی ملکوں اور مشرق وسطیٰ میں کشمیری ملبوسات کی کئی دکانیں ہیں مگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے اس کی خریدوفروخت کو موثر بنا دیا ہے۔ پھر جب امریکی سٹور ایمازون کا سیلزمین پھیرن پہن کر کشمیر کی گلیوں میں گھوڑے پر سوار ہو کر گاہک کے پاس پہنچ جاتا ہے اور اس کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے تو نہ صرف سفید چادر میں لپٹے کشمیر کی خوبصورتی دور دور تک دیکھی جاتی ہے بلکہ کشمیری پھیرن کی مارکیٹنگ ایک اور فیشن شو بن جاتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔