کراچی کی سینٹرل ویمن جیل میں قیدی خواتین کے ساتھ پرورش پانے والے بچوں کے لیے حال ہی میں ایک سماجی تنظیم کی جانب سے فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔
ان میں سے کچھ بچے ایسے بھی تھے، جنہوں نے جیل کی چار دیواری میں ہی آنکھ کھولی۔
ویمن سینٹرل جیل میں فیسٹیول کے دوران جہاں بچے باؤنسنگ ہاؤس میں اچھل کود کر رہے تھے، وہیں کچھ کے ہاتھوں میں کتابیں تھی۔
ان بچوں کے ساتھ ان کی مائیں بھی موجود تھیں، جن کے چہروں پر وقتی مسکراہٹ تو تھی لیکن آنکھوں میں مایوسی صاف جھلک رہی تھی۔
ان ہی میں سے ایک 33 سالہ خاتون گذشتہ پانچ سال سے ویمن جیل میں سزا کاٹ رہی ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ’ان پر دفعہ 302 لگائی گئی ہے۔‘
خاتون کے مطابق ان کا ’جرم نا کردہ‘ ہے، جس کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ ان کے دو بچے ان کے ساتھ ہی جیل میں ہیں، جن میں سات سال کی بیٹی اور پانچ سال کا بیٹا شامل ہیں، جس کی پیدائش جیل میں ہی ہوئی۔
انہوں نے بتایا: ’جب حاملہ تھی اس دوران مجھے اپنے گھر کی اور شوہر کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ یہ وقت ذہنی دباؤ اور تکلیف میں گزرا، ہر وقت بس یہی دعا کی کہ اللہ کسی عورت کو جیل کی ہوا نہ لگائے۔ پانچ سال ہو گئے ہیں قید کی زندگی میں لیکن سارا دن گزار کر جب رات ہوتی ہے تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہر طرف سناٹے ہوتے ہیں، خوف سا محسوس ہوتا ہے، ایسے میں بچے سہم جاتے ہیں تو بچوں کو دلاسہ دیتی ہوں کہ ہم جلد بری ہو جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جیل میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھنا میری مجبوری ہے۔ کون ماں چاہے گی کہ بچے کی آنکھ قید خانے میں کھلے اور بالغ ہونے سے پہلے ان کا بچپن چھن جاتا ہے۔ جیل میں بچوں کو دینی اور اکیڈمک ایجوکیشن دی جاتی ہے لیکن جیل کا ماحول گھر کے ماحول سے الگ ہے، یہاں بچوں کی جتنی بھی ذہن سازی کر لی جائے لیکن ان کے اوپر منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔‘
خاتون کے مطابق: ’میرا بیٹا مجھ سے جب بھی بات کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہم کورٹ کب جائیں گے کیونکہ بیرک سے نکل کر عدالت میں پیش ہونا اس کے لیے تفریح کا ذریعہ ہے کیونکہ یہ باہر کی دنیا سے نا آشنا ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور قیدی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جیل میں ہر دن گھٹن زدہ لگتا ہے، یہاں کوئی ایسی پریشانی تو نہیں لیکن قید کی زندگی قید اور پابندی کی ہی ہوتی ہے۔‘
یہ خاتون گذشتہ چار سال سے قید میں ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، جس میں سے ایک بچہ دوران قید ہی پیدا ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں بچوں کی پرورش انتہائی مشکل ہے، سکول جاتے ہیں لیکن پھر بھی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے کیونکہ یہاں استعمال کیے جانے والے الفاظ اور انداز بچوں میں رچ بس جاتے ہیں۔‘
خاتون نے بتایا: ’ہر رنگ اور نسل کی خاتون جیل میں موجود ہیں، سب کا رہن سہن اور انداز الگ ہے۔ کوئی خاتون غصے میں تلخ بھی بول دیتی ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچہ روز مرہ کوئی ایسا غیر اخلاقی لفظ زبان پر لے آتا ہے جو اس نے کہیں نہ کہیں سے سنا ہوتا ہے۔‘
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جووینائل جیل شیبا شاہ نے فیسٹیول کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سال کے آغاز میں بچوں کی تفریح کا اہتمام کیا گیا ہے اور نہ صرف جیل میں بلکہ کبھی کبھی بچوں کو باہر سیر کے لیے بھی لے کر جایا جاتا ہے تاکہ بچے کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں کیونکہ قیدی ماؤں کے ساتھ بچے بے قصور ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سینٹرل جیل میں خواتین کے لیے مخصوص حصے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر ماحول ہے۔ وہاں بچوں کو پڑھانے کے لیے ارلی لرننگ سینٹر بھی ہیں، بچوں کی تفریح اور سوجھ بوجھ بڑھانے کے لیے سینسری گارڈن ہیں اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے بھی میسر ہیں۔
شیبا شاہ کے مطابق: ’خواتین جیل میں 260 خواتین کی گنجائش ہے جبکہ 160 قیدی خواتین ہیں اور ان کے ساتھ بچوں کی تعداد 34 ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔