انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں پولیس نے پرچہ امتحان میں اسلام کی مبینہ توہین پر پروفیسر کا ہاتھ کاٹنے والے شخص کو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے بعد گرفتار کر لیا۔
انڈیا کے قومی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) نے 38 سالہ شخص، جن کا پہلا نام سواد بتایا گیا، کو 13 سال تک تلاش کے بعد بلآخر منگل کو کیرالہ کے کنور ضلع سے گرفتار کیا۔
مقامی کالج میں مالائیلم زبان کے پروفیسر ٹی جے جوزف 2010 میں ریاست کے پرامن شہر موواتوپوزا میں اتوار کی عبادت کے بعد گھر لوٹ رہے تھے جب ایک گروہ نے ان کی کار کو روک لیا۔ اس کے بعد کلہاڑا لیے ایک شخص نے ان کھڑکی کا شیشہ توڑنے کے بعد پروفیسر کو گاڑی سے نکلا اور ان کو مارنا شروع کر دیا۔
اس حملے میں پروفیسر کا ایک ہاتھ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا جب کہ دوسرا مشکل سے ہی باقی جسم کے ساتھ لٹکا رہ گیا۔ مشتبہ حملہ آوروں نے اس کے بعد کروڈ بم پھنکا اور انہیں روڈ پر خون میں لت پت چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
پروفیسر پر اسی سال مارچ میں کالج کے امتحانات کے دوران ان کی جانب سے مرتب دیے گئے پرچے میں ایک سوال میں پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا۔
اس کے چار ماہ بعد پاپولر ’فرنٹ آف انڈیا‘ نامی تنظیم نے یہ پروفیسر پر حملہ کیا۔ یہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیم تھی جس پر انڈین حکومت نے دہشت گردی میں ملوث ہونے اور ’ملک مخالف سرگرمیوں‘ کے لیے لوگوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کا الزام لگاتے ہوئے پابندی لگا دی تھی۔
زخمی پروفیسر کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چھ ڈاکٹروں نے 15 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد بازو سے لٹکے ہوئے ہاتھ کو واپس کلائی کے ساتھ سِی دیا۔ پولیس نے کئی سالوں میں اس مقدمے سے جڑے 42 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے 19 افراد کو
انڈیا کے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت مجرم قرار دیا گیا اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سواد پر اس جرم کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرنے اور اسے سر انجام دینے کا الزام لگایا گیا تھا جو ان کے سر پر لگی 10 لاکھ روپے قیمت کے باوجود ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک پولیس سے مفرور رہنے میں کامیاب رہے۔ انٹرپول نے بھی ان کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا تھا۔
سواد کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ انہیں بدھ کو این آئی اے کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے 24 جنوری تک عدالتی تحویل میں دینے کا حکم جاری کیا۔
پروفیسرجوزف نے کہا کہ وہ 13 سالوں بعد اپنے مجرم کی گرفتاری کی خبر سن کر خوشی محسوس کر رہے ہیں۔
انہوں نے انگریزی اخبار ’دا انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا: ’مجھے ان کے سلاخوں کے پیچھے رہنے یا آزاد گھومنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
ان کے بقول: ’جب تک جرم کرنے والے یا وہ جو اس سازش میں شامل تھے کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، ان کی سرگرمیوں کو روکا نہیں جا سکتا۔‘
پروفیسر جوزف نے مزید کہا: ’میرے خیال سے ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے جب تک اس عمل کے پیچھے مجرمانہ سوچ رکھنے والوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ حملے کے پیچھے کی سوچ تک پہنچے بغیر ہی تفتیش کو جلد بازی میں نمٹا دیا گیا۔‘
© The Independent