ٹوٹی جوڑی بابر کے لیے کتنا بڑا چیلنج؟

سٹرائیک ریٹ کی وجہ سے بابر اعظم اور رضوان کی جوڑی پر اعتراض اپنی جگہ لیکن یہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والی جوڑی بھی ہے جس نے ایک ساتھ کھیلتے ہوئے 2700 سے زائد رنز بنائے ہیں۔

14 اکتوبر 2023 کو احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان آئی سی سی ورلڈ کپ کے دوران بابر اعظم اور محمد رضوان (پنیت پرانجپی / اے ایف پی)

کون یہ سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل رہی ہو اور بابراعظم اور محمد رضوان کی جوڑی اوپن نہ کرے؟

یہ تحریر مصنف کی زبانی یہاں سنیے:

لیکن پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان آکلینڈ کے پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب نے دیکھا کہ بابراعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا آغاز نہیں کیا بلکہ محمد رضوان کے ساتھ نوجوان صائم ایوب نے اوپننگ کی اور بابراعظم نے نمبر تین پر بیٹنگ کی۔ اب یہ بات طے ہے کہ آئندہ میچوں میں بھی یہی دیکھنے کو ملے گا۔

بابراعظم اور محمد رضوان کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میں اننگز اوپن نہ کرانے کا یہ فیصلہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کا ہے۔ یہ ان کی پرانی خواہش بھی رہی ہے اور اب ٹیم ڈائریکٹر بننے کے بعد انہیں جہاں دوسرے فیصلے کرنے کا موقع مل رہا ہے وہیں انہوں نے یہ فیصلہ بھی کرڈالا۔

اگر ہم اعدادوشمار دیکھیں تو پاکستان کا اوپننگ سٹرائیک ریٹ نیوزی لینڈ، انڈیا، آسٹریلیا اور انگلینڈ سے کم رہا ہے لہذا ٹیم منیجمنٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے کچھ نئے کمبینیشن آزمانا چاہتی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کو 16 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلنے کو ملیں گے۔

بابراعظم اور محمد رضوان کی جوڑی پر یہی اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ ان کا سٹرائیک ریٹ زیادہ نہیں ہے خاص طور پر جب پاکستان کی پہلی بیٹنگ ہوتی ہے تو یہ دونوں تیز سٹرائیک ریٹ سے نہیں کھیل پاتے۔ چونکہ یہ دونوں ایک ہی انداز میں بیٹنگ کرتے ہیں لہذا ان میں سے کسی ایک کی جگہ کسی ایسے اوپنر کو موقع دیا جائے، جو زیادہ سٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرسکے۔

اسی سوچ کے تحت اب بابراعظم کو نمبر تین پر کردیا گیا ہے اور رضوان کے ساتھ اوپننگ کے لیے قرعۂ فال صائم ایوب کے نام نکلا ہے جو ٹیسٹ ٹیم کا بھی پہلی مرتبہ حصہ بنے ہیں اور اپنے پسندیدہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں بھی ان کی واپسی ہوئی ہے۔

سٹرائیک ریٹ کی وجہ سے بابراعظم اور رضوان کی جوڑی پر اعتراض اپنی جگہ لیکن یہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والی جوڑی بھی ہے جس نے ایک ساتھ کھیلتے ہوئے 2700 سے زائد رنز بنائے ہیں جن میں نو سنچری پارٹنرشپس شامل ہیں جن میں سے 2400 رنز اور آٹھ سنچری پارٹنر شپس اوپنرز کے طور پر کھیلتے ہوئے ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان دونوں سے ایک ساتھ اوپن نہ کرانے کی بات ہے تو بابراعظم کو ہی نمبر تین کرنے کی وجہ؟ رضوان کیوں نہیں؟ کیونکہ بابراعظم اور محمد رضوان کا اوپنر کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے سٹرائیک ریٹ تقریباً ایک جیسا ہے۔ دونوں کے رنز میں زیادہ فرق نہیں البتہ بابراعظم نے رضوان کی ایک سنچری کے مقابلے میں تین سنچریاں بنائی ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز رمیز راجہ اور بازید خان یہ جوڑی ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بازید خان کا کہنا ہے ’یہ مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ جب کوئی نیا اوپنر جلد آؤٹ ہوگا تو یقینی طور پر رضوان اور بابر دوبارہ اکٹھے کھیلتے نظر آئیں گے پھر کیا ہو گا؟‘

اوپننگ جوڑی کی اس تبدیلی سے جہاں پاکستان ٹیم کی بیٹنگ لائن پر فرق پڑا ہے وہیں اس کا براہ راست اثر بابر اعظم پر پڑا ہے۔ بابر رضوان جوڑی کو توڑنے سے بابر اعظم نمبر تین پر آئے ہیں جبکہ فخرزمان کو نمبر چار پر کھیلنا پڑا ہے جو پہلے ہی بابر اور رضوان کے اوپن کرنے کی وجہ سے اپنی اوپنر کی پوزیشن سے ہٹاکر نمبر تین کر دیے گئے تھے۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ یہ تجربہ آنے والے دنوں میں کیا رنگ لائے گا ؟ لیکن اگر ہم بابراعظم کی بات کریں تو ظاہر ہے یہ سال ان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے لیے گزشتہ سال انتہائی مشکل اور مایوس کن رہا تھا۔ ان کے کریئر میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی بھی ٹیسٹ میچ میں نصف سنچری نہ بنا سکے تھے۔

اگرچہ انہوں نے ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں ایک ہزار سے زائد رنز سکور کیے لیکن ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ میں وہ کوئی ایسی اننگز کھیلنے میں کامیاب نہ ہوسکے جسے یاد رکھا جاتا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ کپتانی کے معاملے میں بھی بدقسمت ثابت ہوئے اور تجزیہ کاروں کے مطابق ان میں جرات مندانہ فیصلوں کا فقدان واضح طور پر نظر آیا۔

ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کی کرکٹ میں کپتان کی تبدیلی کبھی بھی حیران کن نہیں رہی ہے اور بابراعظم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ تاہم ان کے معاملے میں یہ بات اہم ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں ٹیسٹ کی کپتانی جاری رکھنے کے لیے کہا تھا لیکن بابراعظم نے اس پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ جس کے بعد کرکٹ بورڈ نے شان مسعود کو ٹیسٹ اور شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنا دیا۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نجم سیٹھی کے دور میں جب بابراعظم کو کپتانی سے ہٹائے جانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس وقت ٹیم کے کھلاڑی ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے تھے اور ’سوچنا بھی منع ہے‘ کا نعرہ بلند کر کے ان سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے تھے لیکن اس بار ان کھلاڑیوں کی طرف سے مکمل خاموشی رہی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ چند ایک کھلاڑی کپتان بننے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک عام کھلاڑی کی حیثیت سے بابراعظم کے لیے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز بہت اہم تھی لیکن بدقسمتی سے اس سیریز میں بھی ان کی جانب سے کوئی بڑی اننگز نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ان کے ناقدین کو تنقید کرنے کا اچھا خاصا ایندھن میسر آ گیا لیکن کرکٹ کو سمجھنے والے سنجیدہ طبقے کا یہی خیال ہے کہ فارم آنی جانی چیز ہے، کھلاڑی کی کلاس مستقل ہوا کرتی ہے اور بابراعظم بھی اس مشکل وقت سے جلد ہی نکل جائیں گے۔

اس ضمن میں سب سے بڑی مثال ویراٹ کوہلی کی ہے جو اچھا خاصا عرصہ کسی بڑی اننگز کے بغیر گزارنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اوپنر کی حیثیت سے ہٹائے جانے کے بعد بابر اعظم نے آکلینڈ کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلتے ہوئے نصف سنچری سکور کی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی بیٹنگ پر مکمل توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔

آخر میں باصلاحیت صائم ایوب کا ذکر ہو جائے جنہوں نے آکلینڈ کے پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں دلیری سے بیٹنگ کی اور صرف آٹھ گیندوں پر تین چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 27 رنز بنائے۔ بدقسمتی سے وہ رن آؤٹ ہو گئے لیکن وہ اپنے ارادے اور ٹیم ان سے جو توقعات رکھے ہوئے ہے اس کی جھلک دکھا گئے لیکن صائم ایوب کو ابھی بہت آگے جانا ہے جس کے لیے انہیں مکمل طور پراپنے کھیل پر توجہ رکھنی ہو گی اور ان غیرضروری تبصروں اور موازنوں سے دور رہنا ہوگا جو کسی بھی کھلاڑی کو عرش پر پہنچادیتے ہیں جیسا کہ ان کی بیٹنگ دیکھنے والے ان کا موازنہ ابھی سے سعید انور سے کرنے لگے تھے۔

اس کی ایک مثال فہیم اشرف موجود ہیں جنہیں کبھی پاکستانی بین اسٹوکس بھی کہا جانے لگا تھا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ