ماہرین فلکیات نے کہکشاں میں نئی اور نامعلوم چیز دریافت کی ہے جو ان سب سے بھاری نیوٹرون ستاروں سے زیادہ بھاری ہے جس کے بارے میں سائنس دان جانتے ہیں لیکن پھر بھی سب سے ہلکے بلیک ہول سے زیادہ ہلکی ہے۔
مانچسٹر یونیورسٹی اور جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ریڈیو ایسٹرونومی سمیت متعدد اداروں کے محققین نے یہ شے 40 ہزار نوری سال دور ملی سیکنڈ پلسر کے گرد مدار میں ستاروں کے اس جھرمٹ میں دریافت کی جسے گلوبل کلسٹر کہا جاتا ہے۔
ملی سیکنڈ پلسرز ایک قسم کا پلسر (نیوٹرون ستارے جن سے تابکاری خارج ہوتی ہے) ہوتے ہیں جو بہت تیزی سے گھومتے ہیں یعنی ایک سیکنڈ میں سینکڑوں بار۔
ماہرین کے مطابق یہ ریڈیو پلسر اور بلیک ہول بائنری کی پہلی دریافت ہو سکتی ہے۔ اس جوڑے سے آئن سٹائن کے اضافیت کے عمومی نظریے کے نئے تجربات کیے جا سکتے ہیں اور بلیک ہول کے مطالعے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر میں ایسٹروفزکس کے پروفیسر اور برطانیہ کے منصوبے کے سربراہ بین سٹیپرز کا کہنا ہے کہ ’خواہ کوئی بھی صورت حال ہو دونوں امکانات دلچسپی سے خالی نہیں۔
’پلسر یعنی بلیک ہول سسٹم کشش ثقل کے نظریات کی جانچ کے لیے اہم ہدف ہوگا اور بہت زیادہ کثافت والا بھاری نیوٹرون ستارہ نیوکلیئر فزکس کے میدان میں نئی معلومات فراہم کرے گا۔
جب نیوٹرون ستارے یعنی بہت زیادہ باقیات کے مالک مردہ ستارے بہت زیادہ کمیت حاصل کر لیتے ہیں تو ان کا وجود سکڑ جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ کیا بن جاتے ہیں؟ یہ بات بہت سی قیاس آرائیوں کی بنیاد ہے لیکن مانا جاتا ہے کہ وہ بلیک ہول بن سکتے ہیں۔
مانا جاتا ہے کہ نیوٹرون ستارے کو سکڑنے کے لیے سورج کی کمیت کے مقابلے میں دو اعشاریہ دو گنا زیادہ کمیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان ستاروں سے پیدا ہونے والے سب سے ہلکے بلیک ہول سورج سے تقریبا پانچ گنا زیادہ بڑے ہیں جو صورت حال کا سبب بنتے ہیں جسے ’بلیک ہول ماس گیپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس بڑے فرق میں اجرام فلکی کی نوعیت نامعلوم ہے اور ان کا مطالعہ کرنا مشکل ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین دریافت سے سائنس دانوں کو بالآخر ان اجرام فلکی کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ نئی دریافت قدرتی مظہر میرکیٹ ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے کولمبا (ستاروں کے جھرمٹ نام) کے جنوبی حصے میں این جی سی 1851 کے نام سے مشہور ستاروں کے جھرمٹ میں موجود ستاروں کے بڑے گروپ کے مشاہدے کے دوران ہوئی۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہاں ستارے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کر سکتے ہیں، مدار میں خلل ڈال سکتے ہیں اور انتہائی شدید صورتوں میں آپس میں ٹکرا سکتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ دو نیوٹرون ستاروں کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجے میں وہ بڑی چیز پیدا ہوئی ہوگی جو اب ریڈیو پلسر کے گرد چکر لگا رہی ہے۔
اگرچہ سائنس دانوں کی ٹیم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتی کہ انہوں نے اب تک کا سب سے بڑا نیوٹرون ستارہ، سب سے ہلکا بلیک ہول یا یہاں تک کہ کوئی نیا ستارہ دریافت کیا ہے لیکن انہوں نے ایک ایسی چیز دریافت کی ہے جو کائنات کے انتہائی سخت حالات میں مادے کی خصوصیات پر تحقیق میں مدد کرے گی۔
اس تحقیق کے نتائج سائنس جرنل میں شائع ہوئے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔