اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں بدھ (24 جنوری) کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو ایک ساتھ دیکھ کر ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید آج بہت سخت قسم کے سوالات ہوں گے، جو ایک بار پھر سوشل میڈیا کی زینت بنیں گے۔
یہ احوال ہے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے ’نوجوان، قومی یکجہتی کا محور‘ کے عنوان سے ایک قومی یوتھ کانفرنس کا، جس میں ملک بھر سے مختلف جامعات اور کالجوں کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
ہال میں موجود تمام لوگوں کو آرمی چیف کی آمد کی خبر ان کے آنے تک نہ تھی لیکن ان کے ہال میں داخل ہوتے ہی پورا ہال پرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس وقت وہاں تقریباً دو ہزار سے زائد طلبہ و طالبات موجود تھے۔
اس کنونشن کے مہمان خصوصی نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر تھے۔ ان سے نوجوانوں کا ایک باقاعدہ سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جو اس دو روزہ تقریب کا سب سے دلچسپ اور شاید سنسنی خیز حصہ تھا کیونکہ نگران وزیراعظم سے کیے جانے والے پہلے سوالات سے تقریباً سب ہی واقف تھے۔
چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے خطاب میں مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا۔ غالباً پروٹوکول کی وجہ سے پہلا خطاب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کیا جس کا تقریبا سب ہی بےصبری سے انتظار کر رہے تھے۔ میزبان کی دعوت خطاب کے ساتھ ہی ہال میں ’پاکستان زندہ باد‘ اور ’پاک فوج زندہ باد‘ کے نعرے لگے جس کا آرمی چیف نے بھی بھرپور جواب دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فوجی وردی میں ملبوس جنرل عاصم منیر نے خطاب کے آغاز میں ہی نوجوانوں سے پوچھا کہ میں تقریر اردو میں کروں یا انگریزی میں؟ جس پر تقریباً تمام طلبہ نے کہا کہ ہماری قومی زبان اردو ہے تو آپ اردو میں ہی تقریر کریں۔ آرمی چیف کے اس سوال کو طلبہ نے اپنی بھرپور تالیوں سے سراہا۔
اپنی تقریر کے آغاز میں ہی فوجی سربراہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’مستقبل کے معماروں اور اقبال کے شاہینوں سے مخاطب ہو کر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔‘
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ خود نوجوانوں سے گفتگو وشنید کے بڑے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ملک کی تقریباً اکثر اہم درس گاہوں میں جا کر طلبہ سے براہ راست گفتگو کرتے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ شاید آرمی چیف کے ساتھ طلبہ کے اس مکالمے کا اہتمام بھی ان ہی نے کیا ہوگا۔
یقینی طور پر یہ ہال میں موجود ہر نوجوان کے لیے باعث فخر تھا کہ نگران وزیراعظم اور آرمی چیف ان کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے ان کے سامنے موجود ہیں۔ یہ ایک زبردست قدم ہے جس سے کم از کم نوجوانوں میں سوال پوچھنے کی جرات اور حکمرانوں میں جواب دینے کی ہمت پیدا ہوگی۔
جنرل عاصم نے اس شعر سے باقاعدہ آغاز کیا کہ ؎
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جن کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
آرمی چیف نے نوجوانوں سے سوال پوچھا کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ اس پر سب نے مختلف جواب دیے۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ’ہمارا مذہب، تہذیب و تمدن ہر لحاظ سے ہندوؤں سے مختلف تھا لیکن آج ہم مغرب کے فادرذ ڈے، مدرذ ڈے جیسے دن شوق سے مناتے ہیں تو ایسا کیوں؟‘
ہال میں چند لمحوں کی خاموشی تھی کہ جیسے سب کو احساس ہو کہ یہاں غلطی ہے، جس کے بعد تالیوں سے گونجتا ہال جنرل عاصم کی بات کی تائید کر رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے ملک کے نوجوان اس ملک و قوم کی روشن روایات، اقبال اور قائد کے خوابوں کی تعبیر کے امین ہیں۔‘
آرمی چیف نے اپنی پوری تقریر میں مختلف موضوعات پر بات کی اور سب سے خوبصورت چیز قرآنی آیات کا حوالہ تھا، جو وہ اپنی ہر بات کے ساتھ دے رہے تھے، جو شاید نوجوانوں کو ان کی باتوں کی طرف راغب کرنے کے لیے کافی تھے۔
انہوں نے جب حالیہ پاکستان ایران کشیدگی کا ذکر کیا تو ہال کا جوش و جزبہ دیدنی تھا اور یوں ایک بار پھر ’پاک فوج زندہ باد‘ اور تالیوں کی گونج پیدا ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے یوں محسوس ہوا کہ ہم سب ایک متحد قوم ہیں، لیکن سوالوں کا سیشن ابھی باقی تھا۔
آرمی چیف جب گفتگو کر رہے تو ایک دلچسپ پہلو سب کے لیے یہ تھا کہ وہ سیاست پر کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟
اس سلسلے میں سب سے دلچسپ موقع وہ تھا، جب ایک جانب سے نگران وزیراعظم سے ’سیاسی عدم استحکام‘ پر سوال ہوا، جس پر جنرل عاصم منیر نے سوال کرنے والی لڑکی سے پوچھا کہ پہلے آپ مجھے بتائیں کہ ’سیاسی عدم استحکام‘ کہتے کسے ہیں؟
اس پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا کیونکہ دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت کی مدت کی بات ہوئی تو انہوں نے اس سب کا مورد الزام سوشل میڈیا کو ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دان صرف حصول اقتدار کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے آٹھ فروری کو آپ اپنے نمائندوں کا انتخاب دیکھ کر کریں۔
آرمی چیف کی گفتگو سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ قوم کے تفرقے اور خاص کر سوشل میڈیا کی وجہ سے پولرائزیشن یا تقسیم سے کافی مایوس ہیں اور وہ نوجوانوں کو اس سے نکالنا چاہتے ہیں۔
اسی وجہ سے انہوں نے سوشل میڈیا کو ’شیطانی میڈیا‘ قرار دیا، جہاں بغیر تحقیق خبر آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ انہوں نے اس پر بھی قرآنی آیات کا حوالہ دیا۔
آزادی اظہار رائے، سوشل میڈیا سے متعلق ان کی گفتگو بظاہر سیاسی بسیرت رکھنے والے نوجوانوں کے لیے تھی کہ ’ہمارا دین اور آئین ہمیں چند ’بجا‘ پابندیوں کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، اس لیے کسی کے ذاتی مفاد کی خاطر ریاست کی بقا داؤ پر مت لگائیں۔‘
اس ساری تقریب میں نگران وزیراعظم نے بھی نوجوانوں کے چند سوالوں کے جواب دیے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے جان بوجھ کر ایسے سوال کیے جاتے ہیں تاکہ بعد میں وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوں لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ’عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘
اس سے واضح تھا کہ بلاجھجھک سوالات کی اجازت جہاں نوجوانوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کے لیے کافی تھی، وہیں تمیز کا دائرہ برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری تھا۔
اس تقریب میں جہاں ملک کی دو بڑی شخصیات سے مخاطب ہونے کا موقع ملا، وہیں یہ بھی بخوبی معلوم ہوا کہ وہ ہم سے اس ملک کے مستقبل کے بارے میں کیا توقعات رکھتے ہیں اور ہم سے برداشت، تہذیب اور مذہب کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی بھی توقع رکھتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔