بھٹو کے ذاتی حجام جن کی لاڑکانہ میں دکان توڑ دی گئی تھی

انور علی کھوکھر بتاتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ایک بار بال بنانے کے انہیں 200 روپے ملتے تھے۔

’بھٹو صاحب کی کرسی کے دونوں طرف سٹولوں پر 50، 60 فائلیں پڑی ہوتی تھیں جنہیں بال بنوانے کے دوران وہ پڑھتے اور ان پر دستخط کرتے رہتے تھے۔‘

یہ کہنا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حجام انور علی کھوکھر کا، جو 60 اور 70 کی دہائی میں بھٹو خاندان کے ذاتی حجام رہ چکے ہیں۔

لاڑکانہ کے رہائشی 81 سالہ انور علی کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے ایک انٹرویو میں 1960 کی دہائی کے واقعات یاد کرتے ہوئے کہا کہ: ’میں بھٹو صاحب کے بال تراش رہا ہوتا اور وہ خود ارد گرد سے بے خبر فائلوں میں گم ہوتے تھے۔ بہت محنتی انسان تھے۔‘

انور علی کھوکھر کے مطابق: ’بھٹو دوران حجامت فائلیں چیک کرنے کے ساتھ ساتھ فائلوں پر دستخط کرتے رہتے۔ میں بال بناتے ہوئے کبھی ان کو ڈسٹرب نہیں کرتا تھا۔  

’وہ سر دائیں جانب کرتے تو میں بائیں جانب سے بال بناتا اور اگر وہ سر کو بائیں جانب موڑتے تو میں دائیں جانب سے بال بناتا اور سر کو نیچے کرتے تو میں سر کے پیچھے بال بناتا تھا۔‘

انہوں نے سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے بال 60 کی دہائی میں تراشے تھے جب وہ ملک کے وزیر خارجہ تھے، جب کہ صدر بننے کے بعد انور علی کو سرکاری طور پر سربراہ مملکت کا حجام قرار دے دیا گیا تھا۔

’اس کے بعد میں بھٹو صاحب کا ذاتی حجام رہا اور انہیں پھانسی لگنے تک میں نے ہی ان کے بال بنائے۔‘

انور علی کھوکھر صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی کے نہیں بلکہ پورے بھٹو خاندان کے ذاتی حجام رہ چکے ہیں۔

’میں ان کا فیملی باربر تھا۔ میں نے بھٹو کے علاوہ سر شاہ نواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو سمیت خاندان کے مختلف افراد کے بال بھی بنائے ہیں۔‘

انور علی کھوکھر نے یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا: ’ذوالفقار علی بھٹو جب بھی لاڑکانہ آتے تو انہیں (حجام کو) بھٹو کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کا پاس (اجازت نامہ) جاری ہوتا تھا جس کے ذریعے وہ دن یا رات کے کسی بھی وقت میں گھر میں آ جا سکتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کئی مرتبہ بھٹو نے ایمرجنسی میں مجھے صبح کے چار بجے بلوا کر بال بنوائے۔‘

حجامت کے معاوضے سے متعلق سوال کے جواب میں انور علی کھوکھر نے کہا کہ 1970 کی دہائی میں بھٹو کے ایک بار بال بنوانے کے انہیں 200 روپے ملتے تھے جو گھر کے ملازم نذر محمد لغاری انہیں ادا کرتے تھے۔  

بقول انور علی کھوکھر بھٹو نے انہیں ایک مرتبہ دو ہزار روپے کا چیک بھی دیا گیا تھا۔

چیک کی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سنہ 1975 میں بھٹو صاحب کے حکم پر لاڑکانہ شہر کی سڑکوں کو چوڑا کرنے کے دوران بندر روڈ واقع ان کی دکان توڑ دی گئی تھی۔  

’میں اس کے چند روز بعد بھٹو کی کھلی کچہری میں گیا اور انہیں بتایا کہ میری دکان توڑ دی گئی ہے، جس پر انہوں نے لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کو ہدایت کی کہ مجھے کسی اور جگہ دکان بنا کر دی جائے۔ مجھے بعد میں سٹیٹ لائف بلڈنگ کے پاس نئی دکان دی گئی۔

’کچھ عرصے بعد بھٹو نے مجھے دو ہزار روپے کا چیک بھیجا کہ نئی دکان کے لیے سامان خرید لیا جائے۔ لیکن میں نے دکان کا سامان خریدنے کے بجائے اپنے بچوں کو کراچی گھمانے لے گیا اور پیسے وہاں خرچ کر دیے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ