سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا کہ ’اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے، بھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے۔ ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔‘
آج سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔
جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نو رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی
بلاول بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ وہ سماعت کے لیے خصوصی طور اپنی خالہ صنم بھٹو اور بہن آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ آئے۔
تینوں کمرہ عدالت نمبر ایک میں اگلی نشستوں پر براجمان تھے۔ کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔ آج سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا ٹی وی پر انٹرویو کمرہ عدالت میں چلایا گیا جس کے اختتام پر بلاول بھٹو اپنی نشست سے اٹھ کر رضا ربانی کے پاس گئے اور کچھ ڈسکس کیا، جو اس کیس میں بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو کے وکیل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’واحد نکتہ یہی ہے اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی۔‘
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ’ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔‘
ذوالفقار بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی: عدالتی معاون
گذشتہ سماعت میں عدالت نے اس کیس میں مخدوم علی خان اور خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔
مخدوم علی خان نے آج دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں، بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے، اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔‘
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ ’اس صدارتی ریفرنس میں چار سوالات پوچھے گئے۔‘
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ ’کیا ہمارے پاس اس صدارتی ریفرنس کو نہ سننے کا آپشن ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آئینی طور پر تو اس عدالت کے پاس اس ریفرنس پر رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن موجود ہو گا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’اگر عدالت کی رائے ہو کہ سوال مبہم ہے تو بھی عدالت کے پاس آپشن رائے دینا ہی ہو گا؟‘
سپریم کورٹ آٹھ جنوری، 2024 کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر ریفرنس کی سماعت براہ راست نشر کر رہی ہے (سپریم کورٹ آف پاکستان)
مخدوم علی خان نے کہا کہ ’عدالت کے سامنے یہ ایک منفرد کیس ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا ’ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ہم نے صرف قانونی سوال کا جواب دینا ہے؟ کیا ہم نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہے؟ کیا ہم ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بنچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی وڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے؟‘
اسی اثنا میں احمد رضا قصوری روسڑم پر آئے اور جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کی کتاب کا اقتباس پڑھتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس نسیم حسن شاہ پر دباؤ تھا تو کیس سننے سے معذرت کر دیتے۔‘
چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ ’یہ تو ایڈوائس ہی ہو سکتی ہے اس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق؟ قصوری صاحب یہ صدارتی ریفرنس ہے شروع میں آپ کا حق سماعت نہیں۔‘
ہمیں تاریخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے: جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’ہمیں تاریخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے، دھبہ صرف ایک فیملی پر نہیں کچھ اداروں پر بھی لگ چکا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ’یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟‘ عدالتی معاون نے کہا کہ ’یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار تھی؟ یا پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر قصور وار تھا؟ ریفرنس میں دوسرا سوال عمومی نوعیت کا ہے، سوال ہےکہ کیا یہ فیصلہ اچھی نظیر ہے یا نہیں۔‘
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ کیس کو اب انتخابات کے بعد سنیں گے اور سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
الیکشن آٹھ فروری کو ہوں گے چاہے اقوام متحدہ کی قرارداد آ جائے: بلاول بھٹو
سماعت کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں امید ظاہر کی کہ انہیں انصاف ملے گا اور ’آج موقع ہے کہ سپریم کورٹ تاریخ کو درست کرے، جس طریقے سے یہ فیصلہ کروایا گیا وہ بار بار دہرایا جا رہا ہے۔
’ہمیں پورا یقین ہے کہ چیف جسٹس اس کیس میں ہمارے ساتھ انصاف کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔‘
عام انتخابات سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آٹھ فروری کو الیکشن ہوں گے چاہے اقوام متحدہ سے ہی کیوں قرارداد پاس ہو جائے۔
صدارتی ریفرنس کا پس منظر:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں یہ ریفرنس دائر کیا تھا، جس پر اب تک سپریم کورٹ میں آٹھ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت دو جنوری، 2012 کو جبکہ 11 سال قبل آخری سماعت 12 نومبر، 2012 کو ہوئی تھی۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔
حال ہی میں جب اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی میں نو رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت 12 دسمبر اور آٹھ جنوری کو کی۔
ریفرنس کے پانچ بنیادی سوالات کیا ہیں؟
سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے۔ ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
دوسرا سوال: کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانب دار نہیں تھا؟
چوتھے سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
پانچواں سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔