سعودی ہیلتھ کمیشن کی جانب سے سعودی عرب میں مقیم سینکڑوں پاکستانی ڈاکٹروں کی ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں مسترد کیے جانے کی خبر کے بعد جہاں دو طبی اداروں کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، وہیں دوسری جانب پاکستان کے عوامی حلقوں میں ملک کے طبی تعلیم کے نظام پر شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دراصل ڈاکٹروں کو نوکری سے نکالنے کے معاملے پر دو پاکستانی طبی ادارے سی پی ایس پی (کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان) اور اے یو پی ایس پی (ایسوسی ایشن یونیورسٹی آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان) آپس میں برسرپیکار ہیں۔
موخرالذکر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں صرف اُن ڈاکٹروں کی ڈگریاں مسترد کی گئی ہیں جو اے یو پی ایس پی کے ساتھ منسلک ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر اسد نور مرزا نے اس کی وجہ انڈپینڈنٹ اردو کو یہ بتائی کہ سی پی ایس پی نے حسد کی بنا پر سعودی حکام کو بتایا کہ ان ڈاکٹروں کی پاکستان میں بھرپور کلینکل تربیت نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اصل بات یہ ہے کہ سی پی ایس پی ہر جگہ اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ایف سی پی ایس ڈاکٹروں کی تنخواہ اور عہدے ہمارے ایم ایس اور ایم ڈی ڈگری ہولڈر ڈاکٹروں سے کم ہیں تو انہوں نے سعودی حکام کو شکایت لگائی۔‘
ڈاکٹر نور مرزا نے کہا کہ متذکرہ دعوے کے پیچھے ان کے پاس موجود وہ ثبوت ہیں جو انہیں خود سعودی ہیلتھ کمیشن سے ملے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کئی سو ڈاکٹروں کے نکالے جانے کا اعلامیہ جاری کیا جا چکا ہے جن میں سے 6 ڈاکٹر پاکستان واپس آچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشرقِ وسطیٰ کی خبروں پر نظر رکھنے والے ادارے مڈل ایسٹ آئی (ایم ای ای) نے تقریباً ایک ہزار کے قریب ڈاکٹروں کے نکالے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایم ای ای کے مطابق پاکستانی ایم ایس اور ایم ڈ ی کی ڈگریاں مسترد کرنے کے بعد سعودی وزارت صحت نے وضاحت کی ہے کہ یہ ڈگریاں ان کی سرزمین پر اعلیٰ عہدوں پر پریکٹس کرنے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
تاہم اس معاملے پر ابھی تک پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے، جس کی وجہ کچھ پاکستانی ڈاکٹر یہ بیان کر رہے ہیں کہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز کچھ شخصیات سی پی ایس پی کے کنٹرول میں ہیں۔
دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قرضے کے لین دین کے بعد پاکستان کے لیے سعودی عرب میں مقیم اپنے لوگوں کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان تمام الزامات کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سی پی ایس پی کے ترجمان ڈاکٹر پروفیسر غلام مصطفیٰ آرائیں سے بات کی تو انہوں نے مندرجہ بالا تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب میں ابھی تک ایک ڈاکٹر کو بھی ایسی کسی بنیاد پر نہیں نکالا گیا ہے۔ البتہ کچھ ڈاکٹروں کو ان کی سالانہ خراب کارکردگی کی بنا پر نکالا گیا ہے جس کے لیے کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’کسی اور کی برائی کرکے آپ خود دوسروں کی نظر میں گر جاتے ہیں۔ ہم سعودی عرب جاکر اگر پاکستان کے ڈاکٹروں کے لیے اچھا نہیں بول سکتے تو کچھ غلط کیوں کہیں گے؟ پاکستانی حکومت کا اس پر کوئی بیان نہ آنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹروں کونکالے جانے کی بات کو جو رنگ دیا جارہا ہے وہ بے بنیاد ہے۔‘
دوسری جانب سی پی ایس پی کے کچھ ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ تمام خلیجی ممالک کے اپنے قواعد ہیں۔ کچھ ممالک میں ایم ایس پر پریکٹس کی اجازت ہے اور کہیں پر نہیں ہے۔ سعودی عرب کے 18-2017 کے قواعد کے مطابق وہاں انڈیا کی ایم ایس اور ایم ڈی ڈگریوں پر پریکٹس کی اجازت ہے جبکہ پاکستان اس میں شامل نہیں ہے۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ 2020 میں پاکستانی ایم ایس اور ایم ڈی ڈگریاں بھی اس میں شامل ہو جائیں۔
اگر پاکستانی ڈاکٹر امریکہ اور برطانیہ میں کام کرسکتے ہیں تو سعودیہ میں کیوں نہیں؟
پشاور کے ایک نوجوان ڈاکٹر ابراہیم زمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایم ایس اور ایم ڈی پروگرام کی ٹریننگ محض برائے نام ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایف سی پی ایس جو کہ پاکستان میں طب کی سپریم ڈگری مانی جاتی ہے، اس میں بھی بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سپیشلائزیشن کرنے کے بعد بھی امریکہ اور برطانیہ جاکر کچھ ٹیسٹ پاس کرنے ہوتے ہیں اور تب ہی ایک ڈاکٹر کو وہاں ایف آر سی پی (سپریم میڈیکل ڈگری) میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی مختلف ٹیسٹ کروانے کے بعد ہی کلینیکل پریکٹس کی اجازت ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملیے ہسپتال میں اپنے مریضوں کے ساتھ عید منانے والی ڈاکٹر سے
ڈاکٹر زمان کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی مستند طبی ڈگریوں اور پروگراموں کو ہی زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ چونکہ امریکہ اور برطانیہ میں ایم ایس کی ڈگری پر پریکٹس کی اجازت نہیں ہوتی لہذا ہو سکتا ہے کہ عرب ممالک نے اس کی پیروی میں ایسا قدم اٹھایا ہو۔
انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اگر سعودی عرب نے بھارت اور بنگلہ دیش کے ایم ایس ڈگری کے حامل ڈاکٹروں کو نہیں نکالا تو ہو سکتا ہے کہ ان ڈاکٹروں کے پاس پریکٹس کی ڈگری بھی ہو اور وہ اسی ڈگری کے مساوی پوزیشن پر کام کر رہے ہوں۔
پاکستانی ڈاکٹر سپیشلائزیشن کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سپیشلائزیشن پر برطانوی اور امریکی سپیشلائزیشن کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی طبی ڈگری کی بیرون ملک کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ وہ پاکستانی ایف سی پی ایس کی ٹریننگ تو مان لیتے ہیں لیکن ایک ڈاکٹر کو وہاں دوبارہ ٹیسٹ دینے کے بعد ہی داخلہ ملتا ہے۔
ان ڈاکٹروں کا یہ بھی موقف ہے کہ اکثر ڈاکٹر خلیجی ممالک جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں سہولیات اور تنخواہ پاکستان اور مغربی ممالک سے زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ایک ڈاکٹر ان ممالک میں اچھی پوسٹ پر کام کرنا چاہتا ہے تو پاکستانی ڈگری ایف سی پی ایس کی بجائے ایف آر سی پی سے اس کو زیادہ فائدہ ملتا ہے۔
مزید پڑھیں: تولیدی صحت کا ڈاکٹر جو اپنی ہی خواتین مریضوں کے 49 بچوں کا باپ تھا
پشاور کے ایک معروف ہسپتال میں پروفیسر کی پوسٹ پر کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہر باشعور اور سمجھدار ڈاکٹر سپیشلائزیشن کے لیے مغربی ممالک جانا پسند کرے گا۔ بشرط یہ کہ وہ محنت اور مطالعے کے شوق کے ساتھ ساتھ ملک سے باہر جانے کی پوزیشن میں ہو۔ اس کی وجہ انہوں نے ایف سی پی ایس ڈگری میں موجود خامیاں بتائیں۔
پاکستانی طبی ڈگری ایف سی پی ایس میں کیا خامیاں ہیں؟
برطانیہ سے ای این ٹی میں سپیشلائزیشن کرنے والے پشاور کے ڈاکٹر عمران محب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اچھے ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے لیکن ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے یہاں وسائل کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ان ڈاکٹروں کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں سپیشلائزیشن 10 سال میں مکمل ہوتی ہے اور اس تمام عرصے میں ایک ڈاکٹر اپنے مضمون پر بے تحاشا عبور حاصل کر لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’برطانیہ میں ہر سال ایک لیول سے دوسرے لیول پر جانے کے لیے زبانی امتحان (وائیوا) دینا ہوتا ہے، جس میں ایک ڈاکٹر کے سامنے 6 ماہرین کا پینل بیٹھا ہوتا ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ ڈاکٹر نئے لیول پر جانے کا اہل ہے یا نہیں۔ ‘
یہ جاننے کے لیے کہ پاکستان کے طبی نظام میں وہ کون سی خامیاں ہیں، جن کی وجہ سے بیرون ملک ان کی ڈگری کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ کون سے محرکات ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی ڈاکٹر سپیشلائزیشن کے لیے امریکہ اور برطانیہ جانا پسند کرتے ہیں، انڈپیندنٹ اردو نے مختلف ڈاکٹروں سے بات چیت کی، جس کے نتیجے میں مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آئیں۔
1۔ پاکستانی میڈیکل ایسوسی ایشن اور اداروں کے درمیان چپقلش کو ایک طرف رکھ کر یہ دیکھا جائے کہ بیرون ملک کس ڈگری کو زیادہ اہمیت ملتی ہے؟
2۔ ایف سی پی ایس کی ڈگری میں سیاست اور اقربا پروری کا عمل دخل ہے۔ ایک ڈاکٹر کی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی ہونا لازمی ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ایک قابل ڈاکٹر بھی ڈگری سے محروم رہ سکتا ہے۔
3۔ مغربی ممالک کے برعکس ایف سی پی ایس کے امتحان میں کسی قسم کی ریکارڈنگ نہیں ہوتی، لہذا ناانصافی کی صورت میں ایک ڈاکٹر کے پاس چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔
4۔ ایک ڈاکٹر کو 5 سال سپر وائزر کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں، جو مکمل طور پر با اختیار ہوتا ہے۔ لہذا ایک ڈاکٹر کو 5 سال کی طویل مدت کے دوران سپر وائزر کی پسند نا پسند اور جائز ناجائز کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔
5۔ وسائل اور بہترین ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ڈاکٹر کے سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
6۔ گو کہ ایف سی پی ایس کا امتحان مغربی ممالک سے تسلیم شدہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس ڈگری کے حامل افراد امریکہ اور برطانیہ میں کلینکل پریکٹس نہیں کر سکتے۔اس کے لیے وہاں کا ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بیرون ملک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ سے سپیشلائزیشن کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خامیاں اُن کے نظام میں بھی ہیں لیکن وہ خامیاں اتنی زیادہ نہیں ہیں۔ ان ڈاکٹروں کے مطابق پاکستان ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے نہ صرف طبی میدان میں وسائل کی کمی کا شکار ہے بلکہ یہاں پر طبی اخلاقیات بھی بہت کمزور ہیں۔