’انڈیا‘ کے ہاتھوں مارے جانے والے محمد ریاض کون ہیں؟

پاکستانی دفتر خارجہ نے چند روز قبل انڈیا پر الزام عائد کیا تھا وہ امریکہ اور کینیڈا کے بعد اب پاکستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق محمد ریاض 1999 میں انڈین آرمی کے ظلم سے تنگ آ کر اہل خانہ سمیت سرحد پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آ گئے تھے(تصویر: خاندانی ذرائع)

محمد ریاض ان دو پاکستانیوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ انہیں ’انڈین ایجنٹوں‘ نے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ محمد ریاض کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تھا اور وہ 1999 میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔ 

پاکستان کے دفتر خارجہ نے 25 جنوری کو انڈیا پر الزام عائد کیا تھا وہ امریکہ اور کینیڈا کے بعد اب پاکستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔

دفتر خارجہ حکام کے مطابق پاکستان کے پاس پاکستانی سرزمین پر قتل کے دو واقعات میں انڈین ایجنٹس کے ملوث ہونے کے ’مستند شواہد‘ موجود ہیں۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی کا کہنا تھا کہ ’قتل کیے جانے والے دونوں شخص پاکستانی شہری تھے اور انہیں ایک اجرتی قتل کے نظام کے تحت قتل کیا گیا۔‘

سائرس قاضی کے مطابق ’پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے شواہد کی بنیاد پر بے نقاب کیا کے محمد ریاض اور شاہد لطیف کے قتل میں بھارتی شہری اشوک کمار آنند اور یوگیش کمار براہ راست ملوث ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محمد ریاض اور شاہد لطیف کے ٹارگٹ کلرز کو ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں گرفتار کیا۔‘

انڈین ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے محمد ریاض کون تھے؟

خاندانی ذرائع کے مطابق محمد ریاض 1990 کی دہائی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے منتقل ہو کر پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کوٹلی میں رہائش پذیر رہے اور بعد ازاں پنجاب کے شہر مریدکے منتقل ہو گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ایف آئی آر کے مطابق ’گذشتہ برس آٹھ ستمبر کو جب ان کا قتل ہوا تو وہ راولاکوٹ کسی کام سے گئے اور مسجد میں ٹھہر ہوئے تھے جہاں فجر کی نماز کے بعد انہیں نماز کی حالت میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔‘

راولاکوٹ مسجد کے امام قاری امجد نے ایف آئی آر کا اندراج کرایا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ ’محمد ریاض کوٹلی سے ان کے پاس بطور مہمان آئے تھے اور ان کو انہوں مسجد کی دوسری منزل پہ واقعہ کمرے میں ٹھہرایا تھا۔‘

 انہوں نے ایف آئی آر میں ہی اس شک کا اظہار کر دیا تھا کہ ’محمد ریاض کو منظم منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا ہے اور وہ قاتل کو سامنے آنے پر پہچان سکتے ہیں۔‘

راولاکوٹ مسجد کے قاری امجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’محمد ریاض قتل سے ہفتہ پہلے ان کے پاس راولاکوٹ تشریف لائے تھے وہ ان کے جماعت (جموں کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ) کے ساتھی بھی تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ان کے قتل کے بعد پتہ چلا کہ ان کا موبائل فون ہیک ہوا تھا جس سے ان کی لوکیشن ان کے قاتلوں تک پہنچی تھی۔ لیکن کس نے کیوں قتل کیا اس کی تفصیل نہیں بتا سکتے۔‘

مقتول محمد ریاض کے اہل محلہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’محمد ریاض 1999 میں انڈین آرمی کے ظلم سے تنگ آ کر اہل خانہ سمیت سرحد پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آ گئے تھے۔ ان کے والد صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی کو انڈین آرمی نے قتل کر دیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’محمد ریاض جموں کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ کے ساتھ منسلک تھے اور جماعت ہی ان کو خرچہ دیتی تھی۔‘

انڈیا نے قتل کیوں کرایا، کیا محمد ریاض کسی مقدمے میں مطلوب تھے؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’انڈیا کو شک تھا کہ یہ وہاں بیٹھ کر پونچھ راجوڑی، جموں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک اور مجاہد تھا جو اُدھر کام کر رہا ہے اس کے کام بھی ان کے کھاتے میں ڈالے تھے۔‘

 معلومات کے مطابق: ’گرفتار قاتل محمد عبداللہ کا سہولت کاروں سمیت مقامی عدالت میں ٹرائل جاری ہے۔‘

سیاق و سباق

25 جنوری، 2024 کو سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے بریفنگ میں بتایا تھا کہ ’پاکستان کے سکیورٹی اداروں  نے شواہد کی بنیاد پر بے نقاب کیا ہے کہ محمد ریاض اور شاہد لطیف کے قتل میں  بھارتی شہری اشوک کمار آنند اور یوگیش کمار براہ راست ملوث ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’محمد ریاض کو گذشتہ برس راولاکوٹ میں فجر کے وقت قتل کیا گیا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ عبداللہ علی نے محمد ریاض کا قتل کیا۔ محمد عبداللہ علی نے آٹھ ستمبر کو محمد ریاض کو قتل کیا اور ایک تیسرے ملک میں بھارتی ایجنٹوں سے پیسے وصول کیے۔‘

ان کے مطابق ’تحقیقاتی اداروں کے پاس مستند شواہد ہیں کہ اس پوری ٹارگٹ کلنگ مہم میں تیسرے ملک میں موجود بھارتی شہری شامل ہیں جو کہ اس کی فنڈنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایات بھی دے رہے تھے اور مہم کو کنٹرول بھی کر رہے تھے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان