برطانوی دور میں جب شہر بسنا شروع ہوئے تو انھوں نے جہاں چھاؤنی کی حدود مقرر کیں وہیں ایک صدر یا آج کا ڈاؤن ٹاؤن بھی بنایا۔ دوسری صدی شروع ہونے کو ہے مگر اس کمرشل حب کی اہمیت آج تک مسلمہ چلی آرہی ہے۔ صدر کراچی کا ہو یا پنڈی کا آج بھی لوگ اچھا، سستا اور معیاری سامان خریدنے یہاں کا ایک چکر ضرور لگاتے ہیں۔
راولپنڈی شہر کی شہرت کی کئی وجوہات ہیں لیکن آپ کو آج پنڈی چھاؤنی میں لیے چلتے ہیں، جہاں آج بھی 18 ویں صدی کی عمارتی حسن جگمگا رہا ہے اور انہی میں سے وزارت دفاع کی عمارت ’کلکتہ دفتر‘ اور ملحقہ علاقے ’بابو محلے‘ شامل ہوں گے۔ اس دفتر اور محلے کی داستان ڈیڑھ سو سال پرانی ضرور ہے لیکن دلچسپ بھی اتنی ہی ہے۔
جب ہم اس عمارت کے مرکزی دروازے میں داخل ہو رہے تھے تو پنڈی میں موسم شاندار تھا۔ بارش تھم چکی تھی اور فضا میں ہلکی سی خنکی ابھی موجود تھی۔ بارش کے بعد جس طرح ہر چیز دھل کر نکھر جاتی ہے اسی طرح یہ 134 سالہ جودھ پور ی لال پتھروں سے بنی یہ عمارت بھی پوری شان سے کھڑی تھی۔
2011 میں وزارت دفاع نے اس عمارت کی تاریخی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی۔ کئی نسلوں سے سنگ تراش کا پیشہ اپنائے ہنر مند بہاولپور سے بلوائے گئے۔ 2014 تک کلکتہ دفتر کو اس کی ابتدائی شکل میں واپس لایا گیا۔
تاریخی اہمیت
لگ بھگ پونے دو سو سال پرانا قصہ ہے کہ 29 مارچ 1849 کو دوسری اینگلو سکھ جنگ ختم ہوئی اور پنجاب سکھوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر انتظام چلا گیا۔ گریٹ گیم کی ابتدا ہو چکی تھی اور افغان اینگلو جنگ میں برطانیہ کو پے درپے شکست کا سامنا تھا۔ برطانیہ نے سٹریٹیجک پوزیشن کے لیے ایک طرف جی ٹی روڈ کا جال بچھایا اور دوسری طرف ریل کی پٹڑیاں پورے ہندوستان میں دورائیں۔ ساتھ ہی انہیں ایسی جگہ بھی چاہیے تھی جہاں بیٹھ کر وہ خطے پر نظر رکھ سکیں اور اس سلسلے مٰن ان کی نگاہ انتخاب پنڈی پر ٹھہری، جسے برٹش انڈین آرمی کا شمالی ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا۔ جب انگریز فوج پنڈی چھاؤنی پہنچی تو حساب کتاب کے لیے دفتر کی ضرورت پیش آئی تو پنڈی پر قبضے کے کم و پیش 35 سال بعد ملٹری اکاؤنٹ سیکشن عرف کلکتہ دفتر کی عمارت کھڑی کی گئی۔ کل اس سڑک کا نام میکسن روڈ تھا، آج اسے آدم جی روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کلکتہ دفتر کے داخلی دروازے پر تعمیر کا وقت 1885 سے 1888 درج ہے اور اسے ’مرکزی دفتر برائے شمالی برطانوی ہند افواج کے حسابات‘ کا دفتر یعنی ملٹری اکاؤنٹس آفس کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن عمارت کو شہرت اپنے مکینوں کے دم سے ملی اور ’کلکتہ دفتر‘ کہلائی اور ’بنگالی بابو‘ بابو محلے کی پہچان بنے۔
لگتا ہے آج بھی ’بنگال کے جادو‘ کا سحر قائم ہے، اسی لیے پنڈی صدر میں قدیم کلکتہ دفتر بھی ہے اور بابو محلہ بھی۔ البتہ افواج پاکستان کو یہ عمارت 1966 میں خالی کرنا پڑی کیوں کہ دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ عمار ت ’وزارت دفاع‘ کا دفتر بنا دی گئی۔ مگر آج بھی اس دو منزلہ عمارت کے داخلی دروازے پر ’مرکزی دفتر برائے شمالی برطانوی افواج، کلکتہ دفتر‘ اور اس کےتاریخی پہلو درج ہیں۔
کلکتہ دفتر کی عمارت کو ملٹری انجنیئرنگ سروسز (ایم ای ایس) نے تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کے خرچے سے تعمیر کیا۔ اس کا فن تعمیر گوتھک یا فرانسیسی ہے، جب کہ تکونی محرابیں، دیوقامت ستون اور گنبد عمارت کی پہچان ہیں۔ اس کا انداز عیسائی مذہبی عبادت گاہوں سے ملتا جلتا ہے جب کہ کہیں ٹاؤن ہال اور یونیورسٹی کی فن تعمیر کے نمونوں کی جھلک بھی موجود ہے۔
عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مخصوص اینٹوں کی تیاری کے لیے فوج نے جھنڈا چیچی کے مقام پر بھٹہ لگایا تھا۔
ملٹری اکاؤنٹ کا دفتر کلکتہ دفتر کیوں کہلایا
یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جب کلکتہ دفتر اور بابو محلے کے بارے میں پنڈی کے صحافیوں اور رہاشیوں سے پوچھنا شروع کیا تو اکثریت ان ناموں سے واقف نہیں تھی۔ کلکتہ دفتر اور بابو محلے کی تاریخ پر کوئی مستند حوالہ بھی نہیں مل پایا جب کہ اور نئی نسل تو ان ناموں سے بالکل ہی واقف نہیں تھی۔
انٹرنیٹ پر گھوڑے بھی دوڑا لیے کہ شاید کسی بابو یا کسی پرانے پنڈی والے نے اپنی یادیں لکھی ہوں لیکن کچھ نہ ملا، سوائے انگریزی اخبار میں زاہد ربانی کی ’پنڈی آرکیٹیکچر ہیرٹیج‘ تحریر کے۔
زاہد لکھتے ہیں کہ یہاں کام کرنے والے زیادہ لوگ کلکتہ اور ملحقہ علاقوں سے آئے تھے اور ان کی رہائش صدر کے علاقے گھاس منڈی اور بابو محلے میں تھی۔ یہ علاقہ سوشی بھاشن چیٹر جی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اڈیسہ سے تعلق رکھنے والے چیٹر جی صاحب ہندوستان کی آزادی میں متحرک رکن اور صحافی تھے۔ انھوں نے 1922 میں ’دھنک آشا‘ کے نام سے اخبار بھی جاری کیا تھا۔
بڑی تگ و دو کے بعد سینیئر صحافی اعجاز احمد نے سینیئر صحافی ڈاکٹر چغتائی سے رابطہ کروایا۔ ڈاکٹر صاحب پنڈی کے مقامی ہونے کے ناطے شہر کے چپے چپے سے واقف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کلکتہ دفتر‘ بنیادی طور کلکتہ اور بنگال سے بلائے گئے ملٹری اکاونٹ سیکشن کے کلرکوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ یہ بابو اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ آج بھی پنڈی شہر میں ان کا رہائشی محلہ ’بابو محلے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ چھاؤنی کا علاقہ تھا، جو آج بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ملٹری ڈیفنس کی بلڈنگ اور جی ایچ کیو کی عمارتیں بھی ہیں۔ قدیم محلے نے اب ’بابو بازار‘ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ڈاکٹر چغتائی نے عزیز ملک کی کتاب ’راول دیس‘ پڑھنے کا کہا۔ انٹر نیٹ پر دستیاب اس کتاب کا متن بہت دلچسپ ہے۔ قاری پون صدی پہلے کے طرز تحریر کی منظر اور کردار نگاری میں کھو سا جاتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عزیز ملک نے اپنی پہلی نوکری کلکتہ دفتر میں ہی کی۔
عزیز اے ملک کی ’راول دیس‘
یہ کتاب تقسیم سے قبل پنڈی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ عزیز لکھتے ہیں کہ جب پنڈی میں انگریز کی چھاؤنی بنی تو وہاں ہندوستان کے گوشے گوشے سے لوگ آئے، جن میں پوربی ہندو، اگروال بنیے، کشمیری شیخ، بوہرے تاجر اور بنگالی بابو خاصے مشہور تھے۔ ان عناصر کی آمیزش سے چھاؤنی کا تمدن، خاص بولی اور جداگانہ معاشرہ بنتا چلا گیا۔ یہ لوگ رزق کی تلاش میں یہاں آئے تھے پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے تھے۔ یہ علاقہ پہلے غزنوی پور تھا پھر یہ چھاؤنی بنا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ چھاؤنی میں سب سے پہلا اسکول 1890 میں کھلا، جسے کلکتہ دفتر کے بنگالی بابوں نے مٹھو خان کے احاطے میں کھولا تھا۔ بعدازاں اسے پونچھ ہاؤس لے گئے لیکن کچھ عرصے بعد بند کر دیا گیا۔
اس کتاب میں پورا ایک باب’جادوے بنگلہ‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں ’کلکتہ دفتر، بنگالی بابوں اور بابو محلے‘ کا تفصیلی ذکر ہے۔
عزیز لکھتے ہیں کہ مارچ 1849 میں جب انگریزوں نے سکہ شاہی سے نجات دلا کر تاج برطانیہ میں شامل کر لیا۔ پنڈی کی جغرافائی حیثیت کی وجہ سے اسے ملٹری کا شمالی کمانڈ کا صدر مقام بنا دیا۔ کئی دفاتر کی طرح یہاں حسابات افواج کا دفتر بھی کھول دیا۔ اس دفتر کی دو منزلہ عمارت میکسن روڈ پر واقع ہے، جو بنانے والے کی ذوق کو داد دیتی ہے۔ سقف، بام و در اور محرابوں سے اچھے خاصے گرجے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ عمارت پرغرور دلہن کی طرح کھڑی ہے، جو بےجا بھی نہیں کیونکہ اس پورے علاقے میں اس سے زیادہ دلکش عمارت کوئی دوسری ہے بھی نہیں۔
عزیز مزید لکھتے ہیں کہ دیواریں اٹھیں تو اس کے مکین بھی آ گئے۔ اس کے مکین جو بنگالی بابو بننے بنگال اور کلکتہ سے آئے نہیں بلکہ لائے گئے تھے۔ یہ بنگالی بابووں کا ہی دور تھا۔ بیڑی اور تمباکو کے رسیا اپنے دھواں دھواں چہروں کے ساتھ عشق پیچاں کی طرح سرکار برطانیہ کے ہر دفتر پر چھا چکے تھے۔اتر ہو کہ پچھم، دکن ہو کہ پورب، ہیگلی کی گود سے نکل کر ہر اس جگہ پہنچے، جہاں ریل گاڑی انہیں پہنچا سکتی تھی۔ لہذا افواج کے حسابات کے لیے بھی پہلی کھیپ بنگال سے پہنچی۔ یہ لوگ اتنی تعداد میں آئے کہ اس ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر کا نام ہی کلکتہ دفتر پڑ گیا اور یہ نام زبانوں پر ایسا چڑھا کہ آج تک نہیں اتر پایا۔
عزیز صاحب کے مطابق یہ ’بنگالی بابوں کا دور‘ پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا۔‘
ان کا یہ جملہ تو خاصے کی چیز رہا کہ ’تقریبا نصف صدی تک بنگالی مائیں بچوں کی ولادت کے وقت یہ پھونک دیتیں کہ ’بیٹا میٹرک کر لیجو اور کلکتہ دفتر پہنچ جائیو۔‘
کلکتہ دفتر ماہر تعمیرات کی نظر میں
مشہور ماہر تعمیرات یاسمین لاری کلکتہ دفتر کے طرز تعمیر کے بارے میں کہتی ہیں کہ چارلس ایمفرسٹن ایچی سن پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر بنے اور وہ خود انگلو مغل عمارت سازی کے ماہر تھے۔
محرابوں کے ساتھ گنبد اور کپولا سے ملتا جلتا طرز تعمیر ان کا خاصہ ٹہرا۔ لال اینٹوں کی عمارتیں بنیں۔ انھوں نے میو آرٹ سکول کے پرنسپل لوک وڈ کلپنگ اور استاد بھائی رام سنگھ کے ساتھ مل کر کئی یادگار عمارتیں بنائیں، جن میں ایچیسن کالج، پنجاب میوزیم اور نیشنل سکول آف آرٹس آج بھی اپنی ایک پہچان رکھتی ہیں۔
جہاں تک عمارتی ڈیزائن کی بات ہے تو کلکتہ دفتر کی تعمیر میں آرمی انجنیئر نے کئی غیر معمولی انداز اپنائے ہیں۔ اس عمارت کو گوتھک ڈیزائن سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن یہ گوتھک کے بجائے ’رومیساں طرز پر تعمیر‘ ہوئی۔ جو ’رومن اور بازنطینی‘ کا امتزاج سمجھا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ آرکیٹیکچر یورپ کے رومیساں دور سے متاثر تھا، جس کی پہچان لمبی راہداریاں اور اونچے نیم دائرے میں موجود محرابیں ہیں۔
یاسمین نے توجہ دلائی کہ ایک طرف دو طرفہ سیڑھیاں عمارت کے داخلی دروازے سے اوپری منزل تک جاتی ہیں تو وہیں لمبے ستون مرکزی حصوں کو ایک تناسب کے ساتھ نمایاں بناتے ہیں۔ درمیان میں گنبد مغل طرز تعمیر کی پہچان ہے۔ لکڑی کے بنے ڈیزائن بھی اسے 11 صدی کے رومیساں دور کے ساتھ مغل جیومیٹری کے ڈیزائن کی بھی یاد دلاتے ہیں۔ یہ بھی لندن کے ہٹ فیلڈ کی طرح انگریزی حرف U کی شکل پر تعمیر کی گئی ہے۔ خوبصورت اندرونی حصے میں ہوادار کھڑکیاں، اونچی چھتیں اور سیڑھیاں ہیں۔
رومن طرز تعمیر کا گہرا اثر تاج برطانیہ کی عمارتوں پر پڑا ہے۔ یاسمین سمجھتی ہیں کہ کلکتہ دفتر کی رومن طرز کی چھتوں کو مقامی لال ’ٹراکوٹا‘ ٹائلز نے مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ درمیانی سفید چھت فرانسیسی محل لیفتھے کی یاد دلاتی ہے، یعنی یہ پوری عمارت ہی ایک غیر معمولی طرز تعمیر رکھتی ہے، جہاں مقامی کے ساتھ ساتھ کولونیل انداز بھی واضح اور نمایاں ہے۔ وزارت دفاع نے اس عمارت کی اچھی دیکھ بھال کی، جس کی وجہ سے یہ ڈیڑھ سو سال پرانی عمارت اپنی جگہ پورے خدوخال کے ساتھ کھڑی ہے۔
ظفر اقبال ورائچ آرکیالوجیکل انجنیئر ہیں اور پاکستان میں آثار قدیمہ کی بحالی سے متعلق کئی پروجیکٹس کا حصہ رہے ہیں جب کہ آج کل سندھ میں رانی کوٹ کے قلعے کی بحالی کا کام کر رہے ہیں۔ ان کا جود پور کے پتھر کے حوالے سے کہنا ہے کہ اسے مضبوطی اور خوبصورتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کلکتہ دفتر کی اینٹوں میں بھی دستور کے مطابق لال پتھر اور اس کی ریت استعمال کی گئی ہے۔ یہ دیگر جیسلمیر اور گزری کے پیلے پتھر کی طرح کانوں سے نکلتا ہے، لیکن یہ چونے کے پتھر کے ساتھ مل کر دیوا ر کو مضبوط تر بنا دیتا ہے۔
کالی باڑی کا مندر اور بابو محلے کی یادیں
تحقیق کے دوران ہمارے ہاتھ پنڈی کے بنگالی ہندووں کی مذہبی تقریب کی تصاویر لگیں، جن پر تحریر تھا کہ تقسیم سے پہلے کے کالی باڑی کے بنگالی مقیم۔ اب کالی باڑی کا مندر تو نہیں ملا لیکن پنڈی صدر میں شری کرشنا مندر موجود ہے۔
عزیز ملک لکھتے ہیں کہ بنگالی بابو تمام کے تمام، بابو محلہ صدر میں آباد ہوئے۔ کلکتہ دفتر کی طرح ان کی یہ ہی کنیت بھی بابو محلہ کی وجہ شہرت بنی۔ اس محلہ کے در و دیوار اور مکانات بنگلہ موسیقی کے ساز و آہنگ سے معمور رہا کرتے تھے۔ بھوسہ منڈی میں کالی باڑی مندر بھی قائم کر رکھا تھا۔ مندر کے چبوترے کے ساتھ کالی ماتا کی مورتی تھی، جہاں بکرے بھی چڑھائے جاتے تھے۔ ہفتے کی رات مندر کے ایک ہال میں ناٹک تماشے ہوتے تھے۔ مدت تک بنگالیوں نے خلیج بنگال میں کوئی اور لہر شامل نہیں ہونے دی۔ لیکن پنجاب کا ہندو بھی آخر وہیں کا مقامی تھا۔ وہ میٹرک کرتے گئے اور کلکتہ دفتر پہنچتے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنڈی کے مقامی صحافی سجاد حیدر کہتے ہیں کہ بابو محلہ پنڈی کا ایک قدیم علاقہ ہے۔ 1851 میں یہاں ناردن ہیڈ کوارٹر بنتے ہی ہندوستان کے مختلف حصوں سے بنگالی بابو بھرتی ہوئے۔ بابو محلے کا محل وقوع اہم تھا۔ جی ایچ کیو ہو یا کلکتہ دفتر، جی ٹی روڈ ہو یا پھر 1881 میں تعمیر ہونے والا پنڈی ریلوے سٹیشن یعنی سب اہم عمارتیں اور مراکز تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے میں ہی ہیں۔ بابو محلہ کم تنخواہ دار طبقے کے لیے اور خاص کر پردیسی بابووں کے لیے مناسب، سستی اور اچھی جگہ تھی جہاں کینٹ کے بڑے بنگلوں میں افسران رہتے۔ اسی طرح ریلوے سٹیشن کے قدیم بنگلے بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔ ساتھ ہی جی ایچ کیو کے ساتھ کے بنگلے انگریز افسروں کے لیے مخصوص تھے ۔
راولپنڈی میں پیدا ہونے والی بشری اقبال نے ایک مزےدار بات بتائی کہ ان کے پڑوس میں رہنے والا خاندان کلکتہ دفتر میں کام کرتا تھا۔ وہ لوگ بتاتے تھے کہ ’بابو لوگ‘ مخصوص ہوٹل سے کھانا کھاتے، مخصوص نائی اور دھوبی رکھتے تھے جب کہ ان کا لباس بھی مخصوص قسم کا ہوتا تھا۔ انھوں نے ہنستے ہوئے یہ بھی بتایا کہ جب مائیں بچوں کو تیل لگا کر بال سنوارتیں تھیں تو کہتیں بالکل بابو لگ رہا ہے۔ یہ بات زاہد صاحب نے بھی کہی کہ بابو لوگ دبلے پتلے، پھرتیلے، صاف ستھرے لباس اور تیل لگے بالوں والے لوگ ہوتے تھے۔
کل کا بابو محلہ آج کا باو محلہ یا بابو بازار
سجاد بتاتے ہیں کہ آج بابو محلے کو پنڈی والوں نے باؤ محلہ بنا دیا ہے۔ آج جہاں سپیئر پارٹس کی دکانیں ہیں، وہاں اصطبل بھی قائم تھے، جن میں نیچے گھوڑے بندھتے اور اوپر مالکان کی رہائش گاہیں تھی۔ یہاں سے لوگ کشمیر اور مری تک گھوڑا گاڑیوں پر سفر کرتے تھے۔ اکثریت چھوٹے دو کمروں والے گھروں کی تھی اور ہر گلی کے آخر میں آہنی گیٹ لگا ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کی ایک تِکے کی دکان بہت مشہور ہوئی۔ حال ہی میں یہاں صدر عارف علوی بھی آچکے ہیں اور جب دلیپ کمار پنڈی آئے تھے تو انھوں نے بھی رشید سویٹ سے مٹھائی کھائی تھی۔
بابو بازار کے ملک سعید اپنی آٹو پارٹس کی خاندانی دکان پر بیٹھتے ہیں۔ اپنے علاقے کی تایخ بڑی دلچسپ انداز میں سناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب کوئی لڑکا میٹر ک کر کے سرکاری نوکری پر لگ جاتا تھا تو اسے عرف عام میں بابو بلایا جاتا تھا۔ اب بابو نہیں رہے جب کہ پنڈی صدر کا یہ علاقہ بھی تجارتی مرکز بن گیا ہے۔
ہماری داستان تو کلکتہ دفتر سے شروع ہوئی تھی لیکن آج کلکتہ دفتر وزارت دفاع کا دفتر کہلاتا ہے۔ بابو محلے نے بالکل ایک نئی شکل اپنا کر بابو بازار بن چکا ہے۔ امید ہے کہ پنڈی اور پنڈی والے اپنی تاریخ کو یاد رکھیں گے۔