سپریم کورٹ کی ایک جج نے سروگیسی کی اجازت طلب کرنے والی غیر شادی شدہ خاتون کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب کے برعکس جہاں بچے اکثر شادی کے بغیر پیدا ہوتے ہیں، انڈیا میں شادی کے ادارے کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس بی وی ناگرتنا ایک 44 سالہ خاتون کی درخواست پر سماعت کر رہی تھیں جس نے سروگیسی کے ذریعے ماں بننے کی اجازت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ انڈین قوانین کے تحت غیر شادی شدہ خواتین کو سروگیسی کے ذریعے ماں بننے کی اجازت نہیں ہے۔
درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ناگرتنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح نے (خاتون کے) حق میں فیصلہ سنانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
جسٹس ناگرتنا نے کہا کہ ’یہاں شادی کے بعد ماں بننا ایک معمول ہے۔ شادی کے بغیر ماں بننا معمول نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عدالت سروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکرمند ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں شادی کا ادارہ زندہ رہنا چاہیے یا نہیں؟ ہم مغربی ممالک کی طرح نہیں ہیں۔ شادی کے ادارے کی حفاظت کی جانی چاہیے۔
’آپ ہمیں قدامت پسند قرار دے سکتے ہیں اور یہ ہمیں قبول ہے۔‘
ایم این سی کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون نے سروگیسی (ریگولیشن) ایکٹ کے ایک حصے کو چیلنج کیا جو صرف ایک بیوہ یا طلاق یافتہ کو سروگیسی کے ذریعے ماں بننے کی اجازت دیتا ہے۔
ججوں نے تجویز دی کہ خاتون کو گود لینے یا شادی کرنے پر غور کرنا چاہیے اور انڈیا میں پیدا ہونے والے بچوں کی سماجی قبولیت کا موازنہ بیرون ملک پیدا ہونے والے بچوں سے کرنا چاہیے۔
ججوں کے بینچ نے کہا: ’انڈیا مغرب کی طرح نہیں بن سکتا جہاں بہت سے بچے اپنی ماں اور باپ کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہاں ایسے بچے گھومیں جن کو اپنے والد اور ماؤں کے بارے علم نہ ہو۔‘
عدالت نے کہا: ’سائنس نے اچھی خاصی طرح ترقی کی ہے لیکن سماجی اصولوں نے نہیں کی، اور اس کے پیچھے ایک اچھی وجہ ہے۔‘
ججوں نے مزید کہا: ’آپ کو زندگی میں سب کچھ نہیں مل سکتا۔‘
حالیہ برسوں میں شادی کی روایتی تعریف کے تحفظ کا مسئلہ انڈین عدالتوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
گذشتہ سال کئی دنوں کی غور کے بعد انڈین سپریم کورٹ نے ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ شادی صرف مرد اور عورت کے درمیان ایک ادارہ ہے۔
غیر شادی شدہ خواتین کو سروگیسی کی اجازت دینے کے متعلق تحفظات کا اظہار کرنے والی عدالت کے حکم پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ردعمل کا اظہار کیا ہے جن کی دلیل ہے کہ شادی کے ادارے کا تحفظ اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
ایک وکیل انورادھا نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اسے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔
Absolutely ridiculous judgement! It is a woman’s choice to opt for motherhood outside of marriage by whatever way. Will the same apply for men opting for fatherhood outside of marriages! Why the high moral ground in this day & age of science & technology https://t.co/sntj4cX962
— Anuradha (@AnuLexmantis) February 6, 2024
’یہ بالکل مضحکہ خیز فیصلہ! یہ ایک عورت کا انتخاب ہے کہ وہ شادی کے بغیر جس طرح چاہے ماں بنے۔ کیا اس کا اطلاق شادی کے بغیر باپ بننے کا انتخاب کرنے والے مردوں پر بھی ہوگا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں اعلیٰ اخلاقی بنیاد کیوں ہے۔‘
سینٹر فار پالیسی ریسرچ ان انڈیا کے سینیئر فیلو سشانت سنگھ نے کہا کہ ’اس کا تعلق قدامت پسندی یا ترقی پسندی سے نہیں ہے۔ شادی کے ادارے کو محفوظ رکھنا آپ کا کام نہیں ہے، کم از کم آئینی طور پر۔‘
(ایکس کے) ایک اور صارف جی ایس مدھوسودن نے کہا کہ عدالت کو آئین تک رہنا چاہیے اور اس کا کام شادی کے ادارے کو بچانا نہیں ہے۔
Wow, the Supreme Court of India. "The institution of marriage has to be protected. You can call us and tag us conservative, and we accept it."
— Sushant Singh (@SushantSin) February 6, 2024
It is not about conservative or progressive. Preserving the institution of marriage is none of your business, at least constitutionally. pic.twitter.com/tV9P4j56Yx
اس خاتون کے وکیل نے کہا کہ غیر شادی شدہ خواتین کو سروگیسی کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہ دینے کے باعث سروگیسی کا قانون امتیازی ہے اور یہ ’پابندیاں نہ صرف درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ یہ اقوام متحدہ اور تولیدی حقوق کے مطابق خاندان بنانے کے کسی فرد کے بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent