اسرائیل نے ہفتے کو رفح پر فضائی حملے کیے ہیں جہاں بہت بڑی تعداد میں شہری موجود ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے فوج کو جنوبی سرحدی شہر میں ’کارروائی کے لیے تیاری‘ کا حکم دیا تھا۔ رفح نقل مکانی کرنے والے فلسطینی شہریوں کی آخری پناہ گاہ بن چکی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نتن یاہو کے رفح پر حملے کے منصوبے کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکہ نے شدید مذمت کی ہے جب کہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔ تقریباً 13 لاکھ فلسطینی شہریوں نے رفح میں پناہ لے رکھی ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی حملوں میں شدت کے بعد ہفتے کو علی الصبح رفح پر نئے حملے کیے گئے جس کے بعد فلسطینیوں میں اسرائیل کے زمینی حملے کا خوف بڑھ گیا ہے۔
شمال سے رفح کی طرف نقل مکانی کرنے والے فلسطینی شہری محمد الجراح نے کہا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ کہاں جانا ہے۔‘
یہ شہر غزہ کی پٹی میں آبادی کا آخری بڑا مرکز ہے جہاں اسرائیلی فوجی ابھی تک داخل نہیں ہوئے اور یہ انتہائی ضروری امدادی سامان کے داخلے کا مرکزی مقام بھی ہے۔
نتن یاہو کے دفتر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے جمعے کو فوجی حکام سے کہا تھا کہ وہ ’آبادی کے انخلا اور رفح میں چھپے حماس کے عسکریت پسندوں کو تباہ‘ کرنے کے لیے کابینہ کو مشترکہ منصوبہ پیش کریں۔
امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ رفح میں زمینی کارروائی کی حمایت نہیں کرتا اور خبردار کرتا ہے کہ اگر مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اس طرح کے آپریشن سے ’تباہی‘ کا خطرہ ہے۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا بین الاقوامی حمایتی ہے اور اسے اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔
لیکن بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل پر سخت ترین تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی حملے کو دور رس نتائج کا حامل قرار دیا ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میرا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی میں ظاہر کیا گیا ردعمل حد سے بہت بڑھا ہوا ہے۔ بہت سے بے گناہ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ وہ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور جان سے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔‘
نقل مکانی پر مجبور ہونے والے فلسطینی شہری رفح میں داخل ہو چکے ہیں جہاں لاکھوں افراد مصر کی سرحد کے سامنے لگائے گئے خیموں میں سوتے ہیں۔
اے ایف پی کی تصاویر میں تباہی کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ لوگ قطار میں لگ کر پانی لینے پر مجبور ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کی جانب سے زمینی دراندازی کے امکان پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے رفح پر زمینی حملہ تباہ کن ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ غزہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جو محفوظ ہو اور لوگوں کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔‘
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت نے ہفتے کو کہا کہ رات بھر کی بمباری میں کم از کم 110 افراد کی جان گئی جن میں سے 25 رفح میں ہونے والے حملوں میں مارے گئے۔
گذشتہ روز فلسطینی ہلال احمر نے کہا تھا کہ رفح میں ایک حملے میں تین بچوں کی جان گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
60 سالہ فلسطینی شہری جابر البردینی نے کہا: ’ہم نے اپنے گھر کے قریب زوردار دھماکے کی آواز سنی۔ ہمیں جان سے جانے والے دو بچوں کی لاشیں سڑک پر ملیں۔
’رفح میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ اگر وہ رفح پر حملہ کریں گے تو ہم اپنے گھروں میں ہی مر جائیں گے۔‘
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی فورسز نے کئی ہفتے کے محاصرے کے بعد جمعے کو الامل ہسپتال پر دھاوا بولا جس کے دوران فلسطینی ہلال احمر نے ’شدید گولہ باری اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ‘ کی اطلاع دی۔
طبی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ہسپتال میں اس کی ٹیم کے آٹھ ارکان کو گرفتار کر لیا جن میں چار ڈاکٹر، چار زخمی لوگ اور پانچ مریضوں کے ساتھ آنے والے افراد شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے رفح میں کسی بھی قسم کے حملے سے اس صورت حال میں شدت آئے گی ہو گا جو پہلے ہی ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔