پاکستان کی آسکر سلیکشن کمیٹی نے 2020 میں منعقد ہونے والے 92ویں اکیڈمی ایوارڈز کی ’بین الاقوامی فیچر فلم ایوارڈ‘ کی کیٹیگری میں نامزدگی کے لیے پاکستانی فلم ’لال کبوتر‘ کو منتخب کیا ہے۔
آسکر ایوارڈز کی کمیٹی رواں برس دسمبر میں تمام ممالک سے آنے والی فلموں کا جائزہ لے کر حتمی نامزدگیاں کرے گی جس کا اعلان آئندہ برس 13 جنوری کو کیا جائے گا جبکہ آسکر ایوارڈز کا میلہ آئندہ سال 9 فروری کو سجے گا۔
اس کمیٹی کی سربراہ دومرتبہ کی آسکرایوارڈ یافتہ ہدایت کار شرمین عبید چنائے ہیں، ان کے ساتھ اس کمیٹی میں ملک کے نام ور اداکار، ہدایت کار، اور مصنّف سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن میں زیبا بختیار، ضرار کھوڑو، زیب النساء حامد، سرمد کھوسٹ، عاصم عباسی، رضوان بیگ، جمیل بیگ، صنم سعید اور حمنہ زبیر شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسکر ایوارڈز کی حتمی نامزدگی کے لیے کسی فلم کی سفارش بھیجنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مذکورہ فلم کی یکم اکتوبر 2018 سے 30 ستمبر 2019 کے درمیان اُس کے اپنے ملک میں کسی کمرشل سینما میں کم از کم ایک ہفتے تک نمائش کی جاچکی ہو۔ چونکہ رواں برس عید کے بعد اب کوئی دوسری پاکستانی فلم 30 ستمبر سے پہلے نمائش کے لیے پیش نہیں کی جارہی اس لیے اس کمیٹی نے اپنا فیصلہ کردیا جو خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ’لال کبوتر‘ رواں سال 22 مارچ کو سینما میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور یہ 11 ہفتوں تک سینما میں لگی رہی۔ فلم کے پروڈیوسر کامل چیمہ کے مطابق یہ فلم انہوں نے تقریباً 3 کروڑ میں بنائی تھی اور اس کی کُل باکس آفس آمدنی ساڑھے تین کروڑ رہی تھی۔
اس فلم کو ناقدین کی جانب سے بہت سراہا گیا تھا تاہم باکس آفس پر یہ بہرحال کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ واضح رہے کہ آسکرکی نامزدگی کے لیے قائم کمیٹی فلم کو تکنیکی اعتبار سے دیکھتی ہے اور باکس آفس کی آمدنی کو اس میں مدِ نظر نہیں رکھا جاتا۔
اس موقع پر فلم کے ہدایت کار کمال خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے فخر کا لمحہ ہے، ’یہ میری پہلی فلم تھی اور اسے آسکر میں بھیجنے کے لیے منتخب ہونا میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ ہماری پوری ٹیم بہت خوش ہے۔
اس فلم کے پروڈیوسر کامل چیمہ نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ پاکستانی سینما کے لیے اعزاز کی بات ہے کیونکہ اس کے پیچھے ہماری شب و روز کی محنت اور ہدایت کار کمال خان کی کاوش ہے کہ وہ ایک اچھی ٹیم بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف نامزدگی ہی ہمارے لیے بہت بڑا تمغہ ہے۔
لال کبوتر کراچی کی پوش زندگی سے ہٹ کر عام گلیوں میں جنم لینے والی کہانی ہے جس کے مرکزی کردار ایک ٹیکسی ڈرائیور (احمد علی بٹ) اور ایک مقتول صحافی کی بیوہ (منشا پاشا) ہیں، جب کہ اس فلم میں کاشف فاروقی اور سلیم معراج نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔ فلم ایک ٹارگٹ کلنگ کے واقعے پر مبنی ہے جو بظاہر اسٹریٹ کرائم کی ایک عام واردات لگتا ہے۔
اس فلم کے مرکزی اداکار احمد علی بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اور انہیں امید ہے کہ آگے بھی اچھا ہی ہوگا کیونکہ وہ ہمیشہ کی ہی امید رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی سینما کے ازسر نو احیا کے بعد سے پاکستان نے ہر سال ایک فلم کو آسکر کی نامزدگی کے لیے بھیجا ہے تاہم اب تک کوئی بھی فلم آسکرایوارڈز کی حتمی نامزدگیوں میں جگہ نہیں بنا سکی۔
اس بارے میں پاکستان کی سلیکشن کمیٹی کے رکن سرمد کھوسٹ نے انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ بھارت میں پاکستان کی نسبت کئی سو گنا فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ان کی بھی آج تک صرف دو فلمیں یعنی 1989 میں بننے والی ’سلام بومبے‘ اور 2001 میں بننے والی ’لگان‘ ہی حتمی نامزدگیوں میں جگہ بنا سکی ہیں۔
سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ آسکر مین اسٹریم سینما کو کم ہی دیکھتا ہے اور اس میں مزاج کا بھی فرق ہے تاہم جہاں تک پاکستان کی بات ہے یہاں ہمیں فلموں کو ابھی وقت دینا ہوگا۔
پاکستانی سنیما کے احیا کا یہ سفر 2013 میں پاکستانی فلم ’زندہ بھاگ‘ سے شروع ہوا تھا جس کے بعد 2014 میں فلم ’دختر‘ 2015 میں فلم ’مور‘ 2016 میں فلم ’ماہِ میر‘ 2017 میں فلم ’ساون‘ اور گزشتہ سال یعنی 2018 میں فلم ’کیک‘ کو پاکستان کی جانب سے آسکر ایوارڈز کی بین الاقوامی فیچر فلم کیٹیگری میں نامزدگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔