پاکستان میں آٹھ فروری، 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے اکثریتی نشتیں حاصل نہ کرنے کی وجہ سے تاحال حکومت سازی کا مرحلہ مکمل نہیں ہو سکا۔
اس حوالے سے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بحران نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی عمل ہے جو اپنے وقت پر مکمل ہو جائے گا جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت سازی کے معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہ ہونے سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
سیاسی جوڑ توڑ کا کسی منطقی انجام تک نہ پہنچنا اور حکومت کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ سے کیا ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس موضوع پر سیاسی ماہرین بات چیت کی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بے یقینی کی اس صورت حال کو جلد منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے اور اس دوران ہر سیاسی جماعت کی طرف سے بیان بازی اور گولہ باری ہو رہی ہے اس کو بھی نہیں ہونا چاہیے، سیاسی درجہ حرارت نیچے آنے کی ضرورت ہے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا ہے ’کل پرسوں یا 10، 15 دنوں تک معاملہ حل ہو جاتا تو عدم استحکام نہیں ہو گا لیکن اگر یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو یقینی طور پر اس کا اثر ہو گا اس لیے میں کہتا ہوں کہ جتنی جلدی اس معاملے کو لپیٹ سکتے ہیں لپیٹیں۔
’اگر کسی کو کوئی قربانی دینی پڑ رہی ہے تو قربانی دینی چاہیے۔ یہ نہ ہو سٹیڈیم ہی ہاتھ سے چلا جائے ملک کا سوچنا چاہیے، اگر اپوزیشن میں بھی بیٹھنا پڑتا ہے تو بیٹھ جائیں ٹھیک ہے اقتدار سب کو پسند ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس وقت عام آدمی کو سیاست دانوں کی عقل و دانش کی ضرورت ہے اس لیے عقل سے کام لینا چاہیے۔‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے ورنہ معاشی استحکام ایک خواب ہی رہے گا۔‘
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی بات چیت کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’معاملہ حل ہونے کے قریب ہے اور ایک دو دن میں اعلان ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی مسئلہ ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا وہ پھر تمام سیاسی جماعتوں کو ایمانداری کے ساتھ ماننا ہو گا۔‘
اگر پی ٹی آئی کے آزاد اراکین اس عمل کو نہیں مانتے تو پھر کیا ہو گا؟
اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ’جو نہیں مانے گا وہ پھر اپوزیشن میں بیٹھ جائے، حزب اختلاف کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے آنے والے وقت میں ان کی حکومت بھی آ سکتی ہے اس کی تیاری کریں۔
’اگر عدم استحکام کریں گے تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں ہو گا۔ اگر شطرنج کے کھیل کو ہی منتشر کر دیں گے تو پھر شطرنج کون کھیلے گا۔‘
’یہ بحران نہیں ہے بلکہ سیاسی عمل کا حصہ ہے‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا پہلی بار نہیں کہ حکومت سازی میں اتنا وقت لگا ہو، سنہ 2002 کے انتخابات میں جب ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم بنے تھے اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی۔
’ابھی تو 21 دن بھی نہیں گزرے، ابھی وقت ہے یہ بحران نہیں ہے مقررہ مدت سے پہلے ہی فیصلہ ہو جائے گا۔ اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیر ہو رہی ہے بلکہ یہ ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے جو اپنے ٹائم فریم میں ہی مکمل ہو جائے گا۔‘
’دو بڑی سیاسی جماعتوں کا حکومت سازی پر اتفاق ہو رہا ہے‘
سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار جاوید حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی رابطہ کمیٹیوں کا حکومت سازی پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو یقیناً ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا۔
’اطلاعات ہیں دونوں جماعتوں کے درمیان ایک نقطہ پر اتفاق ہوگیا ہے کہ حکومتی سازی کا مکمل طور پر حصہ بنا جائے گا اور وفاق اور پنجاب اور بلوچستان میں بھی کابینہ میں دونوں جماعتوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں گی اور تعاون کریں گی۔‘
جاوید حسین کے مطابق ’تین سال اور دو سال کا فارمولا مسلم لیگ ن کی جانب سے پیپلزپارٹی کو تجویز کیا گیا جو بلاول نے مسترد کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی اس وقت وزارت عظمی لینے کے موڈ میں نہیں ہے اس کی نظریں آئینی عہدوں کے ساتھ اب کابینہ میں اہم وزارتوں پر ہے۔
’ایوان صدر میں آصف زرداری، سپیکر شپ اور دو صوبوں میں گورنرز کے عہدے پیپلزپارٹی کی نظر میں دکھائی دیتے ہیں۔ پیر کو مسلم لیگ ن ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان استحکام پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ بھی مذاکرات کرے گی اور وفاقی میں پاور شئیرنگ پر اعتماد میں لے گی۔‘
سیاسی جوڑ توڑ میں اب تک کیا مذاکرات ہوئے؟
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد 21 دن میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے لیکن حکومت کون سی جماعتیں بنائیں گی اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختلف سیاسی جماعتوں کی ملاقاتیں مذاکرات جاری ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پہلے اجلاسوں میں یہ طے پایا تھا کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے وزیراعظم کے امیدوار کی حمایت تو کرے گی لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی، بلکہ آئینی عہدے لیے جائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کو ٹھٹہ میں ایک جلسے کے دوران اس فیصلے کا اعلان بھی کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، جو پی ٹی آئی کی طرف سے اسد قیصر کی سربراہی میں ملاقات ہوئی۔
پاکستان تحریک انصاف نے عمر ایوب کو وزیراعظم کے لیے نامزد کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے میاں محمد شہباز کو وزیراعظم نامزد کر رکھا ہے۔
پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے دلچسپی ظاہر نہیں کی بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کے روز اپنی تقریر میں کہا کہ ’ابھی صرف پاکستان کو بچانے کا فیصلہ کیا ہے اور صدر کے عہدے کے لیے آصف علی زرداری کا نام پیش کیا ہے۔‘
دوسری جانب ایم کیو ایم نے بھی حکومت سازی میں مسلم لیگ ن کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔