پاکستان میں ہونے والے آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے سیاسی جماعتیں اسی سوچ بچار میں مصروف رہی ہیں کہ ملک میں کون اور کیسے حکومت بنائے، تاہم منگل کی رات اس کشمکش میں اس وقت کسی حد تک کمی ہوئی جب چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتحادی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔
ان جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی شامل ہے جس نے اتحادی حکومت اور مسلم لیگ ن کے وزیراعظم کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے بعد جہاں مختلف دیگر سوالوں نے جنم لیا، وہیں ایک سوال یہ بھی تھا کہ گذشتہ حکومت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا ساتھ دینے والی متحدہ قومی موومنٹ نے اس بار مسلم لیگ ن کا حکومت سازی میں ساتھ دینے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار سے رابطہ کیا کہ جنہوں نے بتایا کہ ’ایم کیو ایم نہیں چاہتی کہ سارا ملبہ صرف ن لیگ اٹھائے۔‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ان (پی ڈی ایم) سے اتحاد صرف الیکشن سے پہلے کا تھا، جو دراصل پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے مفاہمت تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کا مقصد عہدے یا وزارتیں حاصل کرنا نہیں ہے، لیکن انہوں نے دبے الفاظ میں اپنے بلدیاتی نظام سے متعلق پرانے معاملات پر ضرور بات کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنایا جانا چاہیے، جو براہ راست فنڈز کی دستیابی سے ہی ممکن ہو سکے گا۔
بقول فاروق ستار: ’صوبائی حکومتیں کبھی فنڈز روک لیتی ہیں۔ 15 سال سے کراچی میں یہی ہوتا آیا ہے، اس کا توڑ ہونا چاہیے۔‘
بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کو مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان سے حکومت سازی کی غرض سے اتحاد نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس بارے میں فاروق ستار کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ایم کیو ایم پاکستان کا 2022 میں تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑنا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’خالد مقبول صدیقی نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا، جو شاید نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت ہم پارٹی میں نہیں تھے۔ خالد مقبول صدیقی کی مجبوری تھی جو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا۔‘
ایم کیو ایم پاکستان کے علاوہ تحریک انصاف کی دوسری اتحادی جماعتوں نے بھی عمران خان سے راستے جدا کیے تھے، جس کے باعث ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان نے آٹھ فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے ’آزاد امیدواروں کے لیے بھی دروازے کھلے‘ رکھے ہیں۔
فاروق ستار کہتے ہیں: ’ہم نے پہلے بھی (عمران خان کو) کہا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ بیٹھیں۔ آئیں ہم مل کر کوئی راستہ نکالتے ہیں لیکن اب تحریک انصاف کا کسی کے ساتھ بھی نہ ملنے کا آپشن غلط ہے۔‘
تاہم اس حوالے سے مصطفیٰ کمال نے ایک بیان میں کہا کہ ’پی ٹی آئی سے کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا، جس کی بڑی وجہ نو مئی کے بعد کی پی ٹی آئی کی پالیسیاں ہیں، جنہیں ایم کیو ایم پاکستان سپورٹ نہیں کر سکتی۔‘
اس صورت حال پر صحافی فیصل حسین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے تین جماعتوں کے ساتھ اتحاد سے انکار کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے حکومت سازی کے امکانات ختم ہو گئے تھے، اسی لیے انہوں نے مسلم لیگ ن کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس سب کے بعد ایم کیو ایم کی وہ اہمیت نہیں رہی کیونکہ حکومت بنانے کے لیے اب براہ راست مسلم لیگ ن کو ایم کیو ایم کے ووٹ کی ضرورت نہیں۔‘
فیصل حسین کے مطابق: ’بلاول بھٹو اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کو اشارہ دے چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کو صوبوں خاص طور پر سندھ کے لیے پیپلز پارٹی سے کوئی امید نہیں لگانی چاہیے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔