پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے کثرت رائے سے جنسی زیادتی کی ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کے لیے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے داخل کی گئی فوجداری قوانین میں ترامیم کا بل پیش کرنے کی تحریک مسترد کر دی ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’سر عام پھانسی معاشرے میں بربریت اور انتشار پھیلاتا ہے۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’پھانسی کو پھانسی گھاٹ تک رہنے دیں۔ اسے فوارا چوک یا میلوڈی چوک تک نہ لائیں۔‘
پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا جس میں ریپ کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کی سفارش موجود تھی۔
تاہم ایوان بالا نے بل پیش کرنے کی تحریک مسترد کر دی۔ بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ پڑے۔
تحریک کی مخالفت
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’جنرل ضیا کے دور کے سائے دوبارہ ملک میں نہیں دیکھنے۔ سرعام پھانسی نے کبھی ریپ کو نہیں روکا۔ سرعام پھانسی سے ہم 12ویں صدی میں کھڑے ہوں گے۔ یہ 21ویں کے معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ یہاں پھر ہر جرم پر سرعام پھانسی ہو گی۔ سرعام پھانسی سے جرم نہیں رکے گا۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ہمارے بارے میں دنیا میں منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ جرائم پر کڑی سزا ضرور ملنا چاہیے۔ پھانسی کو پھانسی گھاٹ تک رہنے دیں۔ اسے فوارہ چوک یا میلوڈی چوک تک نہیں لائیں۔ دین میں مرے ہوئے شخص کی تضحیک کا پہلو کم ملتا۔ دنیا میں کہیں ایسا تماشا نہیں ہوتا۔ سرعام پھانسی مثبت تاثر نہیں ڈالے گی۔ معاشرے میں سفاکی بڑھے گی۔ سر عام پھانسی کا اسلامی ملک میں تصور نہیں ملتا۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے اس معاملے پر کہا کہ ’قانون میں سزائے موت موجود ہے لیکن سر عام پھانسی کا بل کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ سر عام پھانسی نہیں ہونا چاہیے۔‘
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’چوراہوں پر پھانسی دینے سے احترام انسانیت ختم ہوتا ہے۔‘
تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ’موجودہ قانون میں سزا موت ہے۔ اس کی ہم حمایت کرتے ہیں لیکن سرعام پھانسی آج کل کے زمانے اور معاشرے میں اسکی ضرورت نہیں۔‘
سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ’انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں تو پھانسی کی نوبت نہیں آتی۔ آپ مجرموں کی اصلاح کریں۔‘
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے کہا کہ سر عام پھانسی انسان کی وقار کے خلاف ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک کی حمایت
سینیٹر کامل علی آغا نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا میں سرعام پھانسی موجود ہے۔ امریکہ میں سزا موت انجیکشن لگا کر دی جاتی ہے اور اس کی ویڈیو پبلک کی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں سر عام سر قلم کیا جاتا ہے۔ وہاں جرائم کی شرح اور اپنے ملک میں دیکھ لیں۔ جس شخص نے گھناؤنا جرم کیا اس کا کیا کوئی وقار ہو سکتا ہے؟
سینیٹر ہمایوں مہمند نے بھی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بل ایک بڑے مسئلے کا حل ہے۔ سعودی عرب میں ریپ بہت کم اور مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ یہ جرم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ وہ ممالک جہاں سرعام پھانسی ہے وہاں جرم کی سزا کم ہے۔‘
مولانا فیض محمد نے کہا کہ ’قرآن نے کہا کہ سب کے سامنے سزا ہو چھپا کر سزا دینا تو قران کی رو کے خلاف ہے۔ سزا تو سرعام ہونام چاہیے۔‘
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’یہ کہتے ہیں سزا عام سے سفاکی بڑھے گی، سفاکی تو بڑھ چکی ہے۔ میں تو سر عام پھانسی دیکر سفاکی کو روکنا چاہتا ہوں۔ موٹر وے ریپ کیس کی خاتون، زینب کا وقار نہیں تھا؟ ریپ کرنے والے کا وقار ہے؟
’سر عام پھانسی رکاوٹ کا کام کرے کی۔ اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں آپ پانچ سر عام پھانسیاں دیں اور پھر مزید سرعام پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یورپ اور امریکہ سے نہ ڈریں۔