سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
پیر کو 53 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا تصور بنیادی حقوق کی شقوں سے ہم آہنگ نہیں۔‘
سپریم کورٹ نے آٹھ جنوری 2024 کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن لڑنا شہریوں کا بنیادی حق ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184(3) میں کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں ہے۔‘
اب تفصیلی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی، تاحیات نااہلی انتخابات لڑنے اور عوام کے ووٹ کے حق سے متصادم ہے، عدالت الیکشن ایکٹ کے سکوپ کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہی، آرٹیکل 62 ون ایف کو تنہا پڑھا جائے تو اس کے تحت سزا نہیں ہوسکتی۔‘
تفصیلی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’آرٹیکل 62 میں نئی جزئیات ضیا الحق کے دور میں شامل ہوئیں، نئی جزئیات کا مقصد یہ نہیں تھاکہ زیادہ اچھے لوگ نمائندگی کریں، نئی جزئیات کا مقصد ضیا الحق پر اعتراض کرنے والوں کو روکنا تھا، ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر آرٹیکل 62 میں تاحیات نااہلی کی شق شامل کرائی، آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلریشن کس نے دینی ہے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہو گا، سابق جج عمر عطا بندیال نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھا اور خود فیصلے کی نفی بھی کی، سابق جج عمر عطا بندیال نے فیصل واوڈا اور اللہ دینو بھائیو کیس میں اپنے ہی فیصلے کی نفی کی ہے۔‘
فیصلے کے ساتھ جسٹس یحیی آفریدی کا اختلافی نوٹ شامل ہے، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ’تاحیات نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مستقل یا تاحیات نہیں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کورٹ آف لا کی ڈیکلریشن تک محدود ہے، نااہلی تب تک برقرار رہتی ہے جب تک کورٹ آف لا کی ڈیکلریشن موجود ہو، سپریم کورٹ کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ درست تھا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس منصور علی شاہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ’انتخابات جمہوریت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، الیکشن کے ذریعے شہری اپنے رہنما کے انتخاب اور حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا حق استعمال کرتے ہیں۔
’انتخابات شہریوں کو فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بننے کی اجازت دیتے ہیں، انتخابات انتقال اقتدار کا شفاف اور منظم طریقہ فراہم کرکے حکومت کو قانونی حیثیت دیتے ہیں، حکومت کی یہ قانونی حیثیت ایک جمہوری معاشرے کے استحکام اور کام کے لیے بہت ضروری ہے، کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے میں عدالتوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ ’نااہلی الیکشن لڑنے کے جمہوری حق پر سخت پابندی ہے اسے تسلیم کرنا چاہیے، نااہلی قانون کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ قیاس پر۔
’کسی امیدوار کے کردار کا عدالتوں کے ذریعہ فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے، جمہوری معاشرے میں انتخابی عمل کھلا، منصفانہ اور معاشرے کی اقدار کا عکاس ہونا چاہیے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ڈیکلیریشن کا اختیار کسی عدالت کو نہیں دیا گیا، اس معاملے پرآرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا اصول ہی لاگو ہو گا۔‘
تاحیات نااہلی کیس کا سیاق و سباق
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
عدالت نے اس کیس کی پہلی ابتدائی سماعت کے بعد تین سماعتیں مزید کی تھیں۔ رواں برس پانچ جنوری کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اور آٹھ جنوری 2024 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 11 دسمبر 2023 کو اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جرنلز کو نوٹس جاری کرتے وقت یہ واضح کیا تھا کہ ’موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ موجودہ کیس کا نوٹس دو انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔‘
اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں سمیت 23 فریقین نے درخواستیں دائر کیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔