سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو صحافیوں کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے ان کے خلاف جاری کیے گئے نوٹس واپس لینے کا حکم صادر کیا۔
صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ کے دوسرے ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔
عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے مطابق ’تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے۔ گالم گلوچ الگ بات ہے۔ ایف آئی اے صرف تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔‘
عدالت نے ایف آئی اے کے سربراہ کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں۔ آزادی صحافت آئین میں ہے۔ ’میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں۔ عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہو گا۔
’سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ نقصان کر رہے ہیں۔ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے۔
’کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ پر تنقید پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ایک موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا: ’یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا۔ تھمب نیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا۔ یہ بہت عجیب ہے۔ فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ ’وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کے خلاف رپورٹ دو ہفتے میں فراہم کرے۔‘
اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے کارروائی پر تنقید نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف ’توہین آمیز اور غلط معلومات کی تشہیر‘ کرنے پر 65 افراد کو نوٹس بھیجے ہیں، جن میں شامل 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو 30 اور 31 جنوری کو طلب کیا گیا تھا۔
پریس ایسوسی ایشن آف ہائی کورٹ اور پریس یسوسی ایشن آف سپریم کورٹ نے ان نوٹسز کی مذمت کی اور آزادی اظہار رائے پر قدغن کے مترادف قرار دیا۔
دونوں تنظیموں کی مذمت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدیداروں سے ملاقات کے ایف آئی اے کے نوٹسز پر ازخود نوٹس لیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے عہدیدار عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کی ابتدا میں چیف جسٹس نے پوچھا: ’کتنے مقدمات ہیں؟‘
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’قدرت کا نظام دیکھیں ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا، لیکن معاملہ پانچ رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا۔ پانچ رکنی بینچ نے طے کیا کہ 184 تین کا ازخود نوٹس لینےکا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔ صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یا تو سرکار کہتی ہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا داد رسی کرتی۔ بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر یہ صرف محض کاغذ پر تحریر سمجھیں۔
’اس سے قبل بھی صحافیوں نے شکایت کی تھی لیکن عدالت نے معاملہ نمٹانے کی بجائے اسے سردخانے میں رکھ دیا گیا۔ یہ مقدمہ دفن ہونے کے ساتھ تو بنیادی حقوق بھی دفن ہوگئے۔ میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا۔ کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہوگی۔‘
صحافی قیوم صدیقی نے کہا کہ ’ہم نےجیسے آپ کے سامنے جا کر مسئلہ رکھا ایسے ہی سابق چیف جسٹس گلزار کے پاس بھی جانا چاہا تھا لیکن اجازت نہیں دی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’بس سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کرنی۔ موجودہ پر کرنی ہے۔ یہ شکایتیں سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں ہوتیں۔
’اٹارنی جنرل صاحب؟ دنیا میں زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سےسیکھتی ہیں اور ہم کہتے ہیں بس آگے بڑھو مٹی پاؤ۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’ایف آئی اے نے بھی بس رپورٹ جمع کرا دی کہ کسی صحافی کے خلاف کارروائی نہیں چل رہی، ایف آئی اے نے پرانی کارروائیوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔‘
سپریم کورٹ نےاٹارنی جنرل سےصحافیوں کےتمام مقدمات کی تفصیلات طلب کیں اور کہا کہ ’بتایا جائے کہ مطیع اللہ جان، اسد علی طور،عامر میر اور شفقت عمران کےعلاوہ کون سےمقدمات ہیں؟ صحافیوں پر جو ایف آئی آر ہوئیں اور جو صحافیوں نے ایف آئی آر کروائیں۔ سارا ریکارڈ دیا جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی پولیس جیسے افسران سے تفصیلات لی جائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے۔ مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونا چاہیں۔ خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں۔‘
صحافی مطیع اللہ جان نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ ’ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس بھی مقرر کیا جائے۔ ارشد شریف کا کیس ہو سکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ابھی کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہو۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نفرت انگنیز تقاریر کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں۔ پولیو ورکرز کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے سکولوں میں بم مارے جاتے ہیں۔ انتہا پسند سوچ کے خلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟
’خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ جڑانوالہ میں دیکھیں کیا ہوا۔ سب نفرت کا نتیجہ ہے۔ ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ نفرت پھیلاتے ہیں اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے۔
’اب یہ اژدھا بن گئے ہیں، خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟‘