بلے کے نشان سے متعلق ’پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں‘: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی دائر درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کا منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان ’بلے‘ کی واپسی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ میں جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں‘۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اور مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواست پر سماعت ہوئی۔

تین رکنی بینچ نے جمعے کو سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف  (پی ٹی آئی) کی نمائندگی کرنے والے وکیل حامد خان سے پشاور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے متعلق استفسار کیا۔ 

یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے دو روز قبل پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد گذشتہ روز الیکشن کمیشن نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ 

الیکشن کمیشن کی جانب سے درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے مطابق نہیں کروائے گئے اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین و قانون کے خلاف ہے لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ انہیں تیاری کے لیے وقت چاہیے اس لیے اس معاملے کو دو روز بعد 15 جنوری کو دیکھا جائے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ  کمیشن نے انتخابی نشانات 13 جنوری کو جاری کرنا ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہے کہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت جماعت کے اندر الیکشن نہیں کروائے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے روکا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ آئین و قانون کے تحت ادارے ایک جیسے نہیں ہو سکتے، آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا۔ کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا ہو؟‘

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کا انحصار براہ راست ملک آئین نہیں بلکہ الیکشن ایکٹ پر ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہو گی۔‘

’سب کا بلامقابلہ منتخب ہونا عجیب بات‘

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا انٹرا پارٹی انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟‘ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا پہلے تین پینل تھے پھر اعلان ہوا کہ تمام افراد دستبردار ہو گئے اور انتخاب بلا مقابلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی میں سب کا بلا مقابلہ منتخب ہونا عجیب بات ہے۔

چیف جسٹس نے انٹر پارٹی الیکشن میں بلا مقابلہ انتخاب پر ریمارکس دیے کہ ’یہ جمہوریت تو نہیں ہے۔‘ وکیل مخدوم علی خان نے کہا الیکشن کمیشن کا بھی یہی موقف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین میں وفاقی الیکشن کمشنر سے متعلق ذکر ہے جبکہ نتائج کا اعلان چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کیا انتخابی نتائج پر صرف چیف الیکشن کمشنر کے دستخط ہیں کسی صوبائی الیکشن کمشنر کے نہیں۔

تحریک انصاف کا سیکریٹری جنرل کون؟

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو وکیل الیکشن کمیشن نے کہا پی ٹی آئی نے اپنے آئین کے خلاف انٹرا پارٹی انتخابات کروائے جس کے خلاف متعدد درخواستیں دائر ہوئیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی۔ 

وکیل مخدوم علی خان نے کہا الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، یہ انتخابات خفیہ اور پیش کیے گئے دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’پہلے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر تھے، کیا وہ پارٹی چھوڑ گئے ہیں؟ اسد عمر صاحب کا کوئی استعفی ہے یا ان کو پی ٹی آئی سے نکالا گیا ہے؟‘

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا ان سے متعلق ادارے کے پاس معلومات نہیں۔ عمر ایوب نے پی ٹی آئی کے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن پر دستخط کیے، اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی ہیں، عمر ایوب کیسے سیکرٹری پی ٹی آئی بنے یہ معلوم نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ’کیا سیکرٹری جنرل کی تبدیلی پر پی ٹی آئی کے لیے الیکشن کمیشن کو بتانا لازمی تھا؟‘ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ’الیکشن ایکٹ کے مطابق پی ٹی آئی کو سربراہان کی تبدیلی سے متعلق بتانا ضروری ہے، کسی بھی عہدیدار کی تبدیلی پر سیاسی جماعت کو 15 روز میں الیکشن کمیشن کو بتانا ہوتا ہے۔‘

انٹراپارٹی اتنخابات کس جگہ ہوئے؟

چیف جسٹس نے کہا انٹرا پارٹی انتخابات کہاں ہوئے؟ اور اس میں کتنے افراد تھے؟

وکیل حامد خان نے کہا انتخابات چمکنی پشاور میں ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا اس کا کوئی نوٹیفیکیشن ہے؟ اس حوالے سے پارٹی کے ورکرز کو بتایا گیا کہ ووٹنگ کہاں ہے؟ 

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی جس کے بعد وکیل حامد خان نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ 

چیف جسٹس نے کہا ’کیا ہائی کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات درست ہوئے ہیں؟ بلے کے انتخابی نشان کا معاملہ تو بعد کا ہے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کو دیکھنا ہوگا۔ پشاور ہائی کورٹ نے ایسی ڈکلیریشن ہی نہیں دی کہ انٹرا پارٹی الیکشن درست تھے، انہوں نے اتنا کہا کہ بلے کا انتخابی نشان پی ٹی آئی کو دیا جائے، پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں۔‘

اکبر ایس بابر کا تحریک انصاف سے تعلق

وکیل نے کہا کہ اکبر ایس بابر  پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں ان کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست دائر کی گئی۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’پی ٹی آئی سے کیسے تعلق نہیں؟ جعلی الیکشن کا الزام ہے، ہو سکتا ہے غلط ہو۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اکبر ایس بابر فاونڈنگ ممبر ہیں، ’میرے خیال سے تو فاوئینڈنگ ممبر کو نکالا ہی نہیں جا سکتا۔‘

چیف جسٹس نے فاونڈنگ ممبرز کی تعداد سے متعلق استفسار کیا جس پر حامد خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے 10 سے 12 افراد فاونڈنگ ممبرز تھے۔ 

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا  کہ  وہ پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ’جذباتی نہ ہوں، ان کے رکن نہ ہونے کے دستاویز دکھا دیں۔‘ 

بعد ازاں وکیل حامد خان نے سماعت کے دوران اعتراف کیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں۔ 

چیف جسٹس نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’اتنے عرصے سے پی ٹی آئی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ انہیں پی ٹی آئی سال 2014 سے تنگ کر رہی ہے جب فنڈنگ سے متعلق مسئلہ بنا تھا، فنڈ لینے میں شفافیت کی بات کی تو پی ٹی آئی سے معاملات خراب ہو گئے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ خود سب کچھ کر رہے ہیں یا پیچھے کوئی اور کھڑا ہے؟‘ وکیل نے کہا ’میں خود اپنی مرضی سے کھڑا ہوں اور تب سے جنگ لڑ رہا ہوں۔‘

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ’الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق اصل فائل کل فراہم کرنے‘ سے متعلق حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل صبح دس بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

پشاور ہائی کورٹ میں ہونے والی پیش رفت

لیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے کروائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس جماعت کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا، جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی اور تین جنوری 2024 کو جسٹس اعجاز خان نے کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا۔

تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت، 10 جنوری 2023 کو جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی اور پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کر دیا، تاہم الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست