سندھی اخبار ’مہران‘ جس نے 1957 سے بقا کی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے

چیف ایڈیٹر فقیر منٹھار منگریو مہران اخبار کو ’سندھ کا ترجمان‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے ’سندھ کی سرحدوں کی حفاظت‘ کے لیے جاری کیا گیا۔

’مہران اخبار‘ ان چند سندھی اخبارات میں سے ایک ہے، جو کئی دہائیوں سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔

اس اخبار کا اجرا 1957 میں کراچی سے ہوا تھا اور اب یہ حیدرآباد سے شائع ہوتا ہے۔

اخبار کے چیف ایڈیٹر فقیر منٹھار منگریو کہتے ہیں کہ اسے ’سندھ کی سرحدوں کی حفاظت‘ کے لیے جاری کیا گیا۔

مہران اخبار کو ’سندھ کا ترجمان‘ قرار دیتے ہوئے فقیر منٹھار منگریو نے مزید کہا کہ ’مہران اخبار نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا۔ بھٹو نے اس اخبار کو چار پانچ سال تک بند کروا دیا تھا۔اس کے بعد یہ 1979 میں دوبارہ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔‘

فقیر منٹھار نے بتایا کہ جمشید حیدری، سردار علی شاہ، علی حسن جمال، نواب یامین، نعیم ملک اور ڈاکٹر عبدالرحیم مہر اس کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ اخبار پیر پگارا کا ترجمان اخبار ہے۔ یہ اخبار پیر صاحب کی درگاہ کا ترجمان اخبار ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایم آر ڈی کے دور میں تمام اخباروں پر پاپندی تھی۔ اس وقت ’مہران اخبار‘ پابندی کے ساتھ روزانہ شائع ہو رہا تھا۔ اس وقت عوام مہران اخبار کے انتظار میں رہتے تھے۔‘

فقیر منٹھار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں پیر پگارا کے 80 لاکھ مریدین ہیں اور انڈیا میں بھی ان کے مریدین ہیں۔ ’انڈیا میں مقیم پیر پگارا کے مریدین تک کسی نہ کسی طریقے سے اس اخبار تک رسائی ہو جاتی ہے۔ اگر اخبار باسی بھی ہو جاتا ہے تو بھی وہ بڑے شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دور پرنٹ میڈیا کے لیے انتہائی مشکل دور رہا ہے، لیکن ہم نے کرونا میں بھی کسی ملازم کو نوکری سے برطرف نہیں کیا اور ملازمین کو ہر ماہ تخواہیں ملتی ہیں۔ مہران اخبار نے ہمیشہ غریبوں کی آواز ہمیشہ ایوانوں تک پہچائی۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان