کہا جاتا ہے اسلام آباد پردیسیوں کا شہر ہے اور اس وجہ سے اس کا مقامی کلچر نظر نہیں آتا۔ جب میں کام کے سلسلے میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئی تو ایک جھٹکا سا لگا۔ سب سے زیادہ کراچی کا کھانا یاد آیا، خاص طور پر وہ فٹ پاتھ پرملنے والا انڈے والا برگر۔
بہرحال یہاں بنے نئے دوستوں نے میری اداسی دیکھی توافغانی برگر کا ذکر کیا اور کہا اسلام آباد میں لوگ افغانی برگر کے دیوانے ہیں اور یہ اسلام آباد کی اپنی تخلیق ہے۔
یہ سن کر میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا۔ اسلام آباد کی اپنی تخلیق؟ اب تو یہ افغانی برگر ضرور ڈھونڈنا پڑے گا۔
آس پاس پوچھا تو پتہ چلا افغانی برگر کئی جگہ ملتا ہے۔ کچھ لوگوں نےبتایا ایف سیکٹر، جو اسلام آباد کا پوش علاقہ ہے، وہاں پر بھی اس کا ایک ہوٹل ہے، لیکن اس برگر کے دلدادہ دوستوں نے زور دے کرکہا ’جی نائن والے پر جانا۔ وہاں اصلی افغانی برگر ملتا ہے، ذائقہ دار۔ ایف سیکٹر والا تو بس ایف سیکٹرکے برگر لوگوں کو ہی پسند ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے اور وہاں کا افغانی برگر پھیکا۔‘
اونچی دکان پھیکا پکوان سنا تھا۔ اس لیے یقین بھی کر لیا اور جی نائن کی خواجہ مارکیٹ کا رخ کیا۔ راستے میں بہت سے افغانی کھانوں کے ریسٹورنٹ آئے۔ کابلی پلاؤ،افغانی تکہ، اندازہ ہونے لگا کہ شاید اس علاقے میں افغانی لوگوں کی آبادی زیادہ ہے۔
پتہ کرتے کرتے سب سے پرانے افغانی برگر کے ہوٹل پہنچ گئی۔ یہاں میری ملاقات ہوئی سیف الرحمٰن سے ہوئی جو ڈلائٹ افغانی برگر کے نام سے ہوٹل چلا رہے ہیں۔ ان کی عمر تقریباً اکیس سال ور تعلق افغانستان کے شہر مزارشریف سے ہے۔
سیف نے بتایا افغانی برگر کا کاروبار ان کے بڑے بھائی نے 2002 میں شروع کیا تھا، اُس وقت افغانستان میں جنگ چل رہی تھی اور حالات خراب تھے، لہذاکئی لوگ افغانستان سے پاکستان نقل مکانی کر کے آرہے تھے۔ ان کے بھائی بھی اسی لیے اسلام آباد آئے ۔
یہاں انہوں نے کمائی کا ذریعہ ڈھونڈا، افغانی کھانے کی کمی محسوس کی اور اس طرح افغانی برگر کا بزنس شروع کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیف نے بتایا افغانستان میں یہ برگر عام ہے،اُدھر مرغی کا گوشت استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں وہ ساسیج ڈالتے ہیں کیونکہ اسلام آباد میں لوگوں کوساسیج والا برگر پسند ہے۔
انہوں نے بتایا افغانی برگر کی روٹی خمیرے آٹے سے تیار ہوتی ہے۔ یہ لمبی روٹی ہوتی ہے جس کے تین حصے کیے جاتے ہیں۔ ساسیج کے علاوہ افغانی برگر میں ڈھیر سارے آلو کے چپس ڈالے جاتے ہیں۔
اس میں سرکے، لال مرچ، کٹی مرچ، ٹماٹر اور دیگر مصالحوں سے بنی ایک خاص سرخ چٹنی ڈلتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہری چٹنی ڈالتے ہیں جو پودینہ ،ہری مرچ اور سرکے سے تیار کرتے ہیں۔
سیف نے بتایا وہ چاٹ مصالحہ بھی خود بناتے ہیں، لیکن اس روٹی نما رول کو برگر کیوں کہتے ہیں یہ بات سیف کو بھی نہیں معلوم۔ جب ان سے پوچھا تو سیف نے مسکرا کر کہا ’پتہ نہیں، میں نے تھوڑی اس کا نام رکھا تھا۔ یہ تو بھائی کو پتہ ہوگا۔‘
جب ان سے پوچھا کہ انہیں کیسا لگتا ہے جب دوسرے لوگ ان کی نقل میں اس جیسے برگر بنا نے لگے ہیں ؟ تومیری امید کے برعکس انہوں نے خوش ہو کر کہا ’شروع تو ہم نے ہی کیا تھا لیکن جب یہ مشہور ہوا تو اور لوگوں نے بھی افغانی برگر بیچنا شروع کیا، سب کا کاروبار اچھا چل رہا ہے، اچھی بات ہے۔‘
شروع میں سیف مجھ سے بات کرنے سے بہت شرمارہے تھے۔ پھر انہوں نے ڈر ظاہر کیا کہ کہیں وہ غلط اردو نہ بول دیں۔ سیف کی اس بات پر مجھے اپنے مراعات یافتہ ہونے کا احساس ہوا کہ ان بھائیوں نے علاقہ بدر ہو کر کتنی دشواریوں کا سامنا کیا ہوگا جو آج وہ اردو میں بات کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ سیف کی اردو میں بھلےغلطیاں ہوں لیکن ان کا افغانی برگر واقعی پرفیکٹ تھا۔