انڈیا میں فصلوں کی زیادہ قیمتوں کے مطالبات پر حکومت کے ساتھ بدھ کو مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ٹریکٹروں پر سوار ہزاروں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کی طرف پیش قدمی کی دوبارہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔
اس احتجاج سے دارالحکومت میں شاہراہوں پر ایک سال تک جاری رہنے والے دھرنے کے دہرائے جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں، جس نے 2021 میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو اپنے زرعی اصلاحات کے منصوبوں کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے کسان مظاہرین کو پچھلے ہفتے سے پٹیالہ کے چھوٹے سے گاؤں شمبھو کے قریب روک رکھا ہے، جو ان کی منزل سے کئی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین کو ایک بار پھر آنسو گیس کی شدید فائرنگ سے منتشر کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور کسانوں نے ان کے احتجاج کو روکنے کے لیے کھڑی کی گئی دھاتی سپائکس اور کنکریٹ کی رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے کا عزم کیا ہے۔
بدھ کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں جبکہ کسانوں نے پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے دوران احتجاج میں شامل ایک شخص کی موت کا دعویٰ کیا تھا۔
دوسری جانب پولیس کے ایک بیان میں مظاہرین کی طرف سے نشر ہونے والی ان خبروں کی تردید کی گئی ہے کہ ایک کسان جھڑپوں میں مارا گیا ہے۔ اس کے برعکس فورس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے لاٹھیوں اور پتھروں کے استعمال کے بعد تقریباً ایک درجن پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
45 سالہ کسان جگ موہن سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم یہ تمام رکاوٹیں توڑ دیں گے اور ایک بار جب ہم انہیں توڑ دیں گے تو ہم صرف دہلی پہنچ کر ہی دم لیں گے۔‘
پولیس نے ڈرونز کے ذریعے سڑک کے کنارے احتجاجی کیمپ پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
جس کے جواب میں کسانوں نے حفاظتی چشمے تقسیم کیے اور ڈرونز کو غلیلوں سے نشانہ بنا کر اور ان کے راستوں میں رکاوٹ پیدا کرنے والی پتنگیں اڑا کر انہیں گرانے کی کوشش کی۔
ریاست ہریانہ میں پولیس نے مالکان کو خبردار کیا کہ وہ مظاہرین کو گاڑیاں فراہم نہ کریں اور نقصان کی صورت میں وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 13 فروری کو ہزاروں کسانوں نے خوراک، بستر اور دیگر سامان سے لدے ٹرکوں اور ٹرالیوں پر سفر کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے لیے درالحکومت نئی دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھا۔
یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب کسان یونینز اور مودی حکومت فصلوں کی کم از کم قیمتوں کے حوالے سے کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی۔
تقریباً دو ہفتے گزرنے کے باوجود سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو دہلی سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر روک رکھا ہے۔
ہریانہ پولیس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’آنسو گیس کی شیلنگ جاری ہے اور حالات قابو میں آنے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
کسانوں کی تنظیم ’پنجاب کسان مزدور سنگھرش کمیٹی‘ کے جنرل سکریٹری سرون سنگھ پنڈھر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یا تو حکومت ہمارے مطالبات کو تسلیم کرے یا جمہوری طریقے سے ہمیں دہلی جانے کا حق دے لیکن وہ ایسا بھی نہیں کر رہے۔‘
2021 میں کسانوں کی طرف سے اسی طرح کے ایک سال طویل احتجاج کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے کچھ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے اور تمام زرعی پیداوار کی امدادی قیمتوں کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنے کا عہد کیا تھا۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت آخری وعدے کو پورا کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔