فلسطینی تنظیم حماس نے پیر کو کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں موجود باقی ماندہ قیدیوں میں سے آدھے قیدیوں کو رہا کرنے کے بدلے 45 دن کی فائر بندی کی پیشکش کی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے اب تک کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے۔
حماس کے ایک عہدے دار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیل نے حماس سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے غیر مسلح ہو جائے لیکن یہ ایک ’سرخ لکیر‘ ہے۔
حماس عہدے دار کے مطابق مصری ثالثوں نے اسرائیل کی طرف سے ایک تجویز پہنچائی جس میں ’معاہدے کے پہلے ہفتے آدھے مغویوں کی رہائی، کم از کم 45 دن تک جنگ بندی میں توسیع، اور امداد کی فراہمی شامل ہے۔‘
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے قیدی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں میں سے تقریباً 58 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 34 کو اسرائیلی فوج مردہ قرار دیتی ہے۔
فلسطینی تنظیم کے عہدے دار نے مزید بتایا کہ ’تجویز میں غزہ کی پٹی میں حماس اور تمام فلسطینی مسلح گروہوں کے غیر مسلح ہونے کو جنگ کے مستقل خاتمے کی شرط کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔‘
حماس کے رہنما جنگ بندی کی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن حماس عہدے دار نے کہا: ’حماس اور مزاحمتی گروپوں کا مؤقف ہے کہ مزاحمت کے ہتھیار سرخ لکیر ہیں اور اس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔‘
حماس عہدے دار نے بتایا کہ تنظیم کے مذاکرات کار قطر جا رہے ہیں، جہاں تنظیم کا دفتر موجود ہے اور جہاں اسرائیل کے ساتھ ثالثی بات چیت ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے فی الحال حماس کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
حماس کے عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’حماس نے ثالثوں کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی تجویز پر رضامند ہونے کو تیار ہے جس میں مستقل جنگ بندی، غزہ پٹی سے اسرائیل کی مکمل واپسی، اور امداد کی فراہمی شامل ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قبل ازیں اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ غزہ کا انسانی بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، جہاں کئی ہفتے سے کوئی امداد نہیں پہنچی اور حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔
اسرائیل جو سات اکتوبر 2023 سے حملے کر رہا ہے، اس نے مارچ میں دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں جب دو ماہ کی فائر بندی اگلے مرحلے پر اختلافات کے باعث ختم ہو گئی۔
لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ اسرائیل نے دو مارچ سے انسانی امداد روک رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق طبی سازوسامان، ایندھن، پانی اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (اوچا) کا کہنا ہے کہ ’ممکنہ طور پر انسانی صورت حال اب ان 18 مہینوں میں سب سے بدترین ہو چکی ہے جب سے لڑائی کا آغاز ہوا۔‘
اوچا نے بتایا کہ امدادی کارکنوں کو مجبوراً ’باقی ماندہ ذخائر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے ترسیل کو محدود اور راشن بندی کرنا پڑی۔‘
جنوبی شہر خان یونس کے ناصر ہسپتال میں ڈاکٹر احمد الفرح نے بتایا کہ طبی عملہ ’ہر چیز کی قلت‘ کے باوجود بغیر رکے کام کر رہا ہے۔