پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
سرکاری میڈیا، ریڈیو پاکستان، کے مطابق قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پیر کی شام صحافیوں سے گفتگو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ دو طرفہ مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے جلد ہی اعلیٰ سطح کے تبادلے متوقع ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ انکشاف کیا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی صادق خان نے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل قریب میں ہونے والے اعلیٰ سطحی تبادلوں کے بارے میں کمیٹی کے اراکین کو آگاہ کیا۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ متوقع اعلیٰ سطحی دوروں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کو تقویت ملے گی۔
عرفان صدیقی نے بقول قائمہ کمیٹی کو بریفنگ کے دوران صادق خان نے روشنی ڈالی کہ پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان کی مبینہ سرپرستی کا معاملہ زبردستی اٹھایا ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی سفارت محمد صادق نے 21 سے 23 مارچ تک کابل کا دورہ کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات حالیہ مہینوں میں سکیورٹی، سیاسی اور سرحدی مسائل کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں۔
اسلام آباد نے کابل میں طالبان کی قیادت والی عبوری حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے جو سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی اور معاونت کر رہے ہیں۔ کابل نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق لندن میں اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان اور دیگر ’دہشت گرد تنظیمیں‘ افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہیں اور پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو ’شہید‘ کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ کہ ’افغان عبوری حکومت کو ہم نے متعدد بار یہ پیغام دیا کہ دوحہ معاہدے کے مطابق وہ کسی طور پر بھی افغانستان کی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن بد قسمتی سے ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں وہاں سے آپریٹ کرتی ہیں اور پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو انہوں نے شہید کیا ہے۔‘
افغانستان کی طرف سے پیر کو ایک بیان میں پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان کو مسترد کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان اور دیگر ’دہشت گرد تنظیمیں‘ افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہیں۔
افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی باختر نیوز کے مطابق افغان حکومت کے نائب ترجمان ملا حمد اللہ فطرت نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کو درپیش سکیورٹی چیلنجز اس کا داخلی مسئلہ ہے اور ان کے لیے افغانستان کو موردِ الزام ٹھہرانا غیرمنصفانہ ہے۔‘
ملا حمد اللہ فطرت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے یہ کہنا کہ مبینہ طور پر مسلح گروہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، حقیقت کے برخلاف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’افغانستان، پاکستان کے سکیورٹی مسائل کا ذمہ دار نہیں ہے۔‘