شیخ زاید بن سلطان کی ہزاروں پورٹریٹس بنانے والے پاکستانی آرٹسٹ

زندگی کے 29 سال متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظبی میں گزارنے والے لیاقت  علی خان کے مطابق اس عرصے میں انہوں نے شیخ زاید بن سلطان النہیان کے ایک ہزار 60 پورٹریٹ بنائے اور اب وہ کوہاٹ میں ایک آرٹ اکیڈمی چلا رہے ہیں۔

لیاقت علی خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے ہے جہاں وہ ایک آرٹ اکیڈمی چلا رہے ہیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے حاصل کی اور پھر پشاور چلے گئے جہاں انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ٹاپ کیا۔

 اس کے بعد وہ اسلام آباد چلے گئے جہاں کورین ماہرین کی زیر نگرانی انہوں نے آرٹ کی جدید تعلیم حاصل کی اور پھر سینیما کی لائن اختیار کر لی۔ وہاں انہیں ’پشتو فلموں کا پہلا‘ ایڈورٹائزمنٹ ایوارڈ ملا۔

اس وقت وہ کوہاٹ میں ایک آرٹ اکیڈمی چلا رہے ہیں، جہاں انہوں نے محض ایک ہزار روپے فیس کے عوض بچوں کو آرٹ سکھانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔

لیاقت علی خان نے زندگی کے 29 سال متحدہ عرب امارات میں ابو ظبی میں گزارے جہاں وہ بلدیہ میں ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پینٹنگ کا شوق جنون کی حد تھا تو وہاں انہوں نے ابوظبی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان کی پینٹنگز بنانا شروع کر دیں اور وہاں کے چوکوں اور چوراہوں پر نصب کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’29 سال میں، میں نے شیخ زاید بن سلطان النہیان کے ایک ہزار 60 پورٹریٹ بنائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیاقت علی بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے متحدہ عرب امارات میں ان کا دو ہزار 220 مربع فٹ کا پورٹریٹ بنایا تو انہوں نے مجھے اپنے محل میں مدعو کیا اور وہاں مجھے کہا کہ میری 200 پرانی تصاویر بنا دیں جو میں نے 11 ماہ میں مکمل کیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’امارات میں ایک بار ایک آرٹسٹ مہاتما گاندھی کی 4000 مربع فٹ دنیا کی سب سے بڑی تصویر بنانے لگا تو میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ میں بھی قائداعظم محمد علی جناح کی دنیا کی سب سے بڑی تصویر بناؤں گا۔‘

لیاقت علی کے مطابق: ’میں اسلام آباد آیا اور اس وقت سرتاج عزیز سے ملاقات کر کے آرکائیو سے قائد کی تصاویر حاصل کیں اور کام میں لگ گیا اور مصمم ارادہ کیا کہ میں قائد کی 8000 مربع فٹ تصویر بناوں گا۔ جب تصویر مکمل ہو گئی تو وہاں میں نے پاکستانی سفارت خانے اور میڈیا کو مدعو کیا اور اس پینٹنگ کے بارے میں پریس میں کانفرنس کی۔

’اس کے بعد میں نے اپنی جیب سے 40 ہزار درہم خرچ کر کے قائداعظم محمد علی جناح کی اس پینٹنگ کو آٹھ مارچ 2001 کو پاکستان بھیجا تاکہ اسے پریڈ گراؤنڈ میں نصب کیا جا سکے مگر 23 سال گزرنے کے بعد بھی آج تک وہ تصویر کہیں نصب ہوئی نہ مجھے واپس ملی۔ میں اسلام آباد کے چکر لگا لگا کے تھک گیا ہوں۔‘

لیاقت نے مزید بتایا: ’2001 میں لگنے والی تصویر 2024 تک بھی نہیں لگ سکی۔ یہ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد بار جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، ان کے سٹاف کے اہلکاروں، سینیٹ کے چیئرمین میاں محمد سومرو اور بعد میں آنے والے کئی حکمرانوں اور وفاقی وزرا سے رابطے کیے لیکن ’ہر مرتبہ ’ہوجائے گا‘ کا وعدہ ہونے کے باوجود وہ پورٹریٹ گودام سے نہیں نکل رہی۔‘

اب لیاقت کوہاٹ کے بچوں اور نوجوانوں میں آرٹ کا علم منتقل کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا: ’کوہاٹ کے طلبہ میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ ایک چھوٹا شہر ہونے کی وجہ سے مجھے بچوں سے فیس لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ اگر کسی بچے کے پاس اکیڈمی کی فیس کے ایک ہزار روپے ہیں تو دے دے، نہیں ہیں تو بھی کوئی بات نہیں۔‘

ان کے مطابق: ’کوہاٹ کے مختلف سکولوں میں ہمارے تربیت یافتہ طلبہ و طالبات ٹریننگ دے رہے ہیں جبکہ ہم سے سیکھے ہوئے کئی لوگ نوکریاں کر رہے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی