لاہور میں شروع ہونے والے چار روزہ ڈیجیٹل آرٹس فیسٹیول کی افتتاحی تقریب بدھ کو عجائب گھر میں منعقد ہوئی، جس میں کئی معروف فنکاروں نے شرکت کی۔
فیسٹیول میں 14 ممالک بشمول جرمنی، آسٹریا، امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی کے 74 فنکار 130 سے زیادہ ڈیجیٹل فن پاروں کے ہمراہ لاہور کے نو مختلف مقامات پر ہونے والی نمائش میں شرکت کر رہے ہیں۔
فیسٹیول کے کیوریٹر نجم الاسرار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل آرٹسٹ کو عجائب گھروں اور آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے جگہ نہیں دی جاتی۔
’انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کا آرٹ کمپیوٹر نے بنایا ہے اس لیے آپ کو اصل آرٹسٹ نہیں کہہ سکتے۔
’چھ برس پہلے جب میں نے اس فیسٹیول کا آغاز کیا تھا تو اس وقت میرا مقصد یہ تھا کہ اس کام کو عجائب گھروں میں لایا جائے اور آج یہاں لاہور عجائب گھر میں ڈیجیٹل فنکاروں کا کام نمائش کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، جو ایک علامت ہے کہ ڈیجیٹل آرٹ اتنا ہی آرٹ ہے جتنا کہ ایک پینٹر یا کسی اور مصور کا کام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ڈیجیٹل آرٹ فیسٹیول آن لائن ہوا کرتا تھا تاکہ اسے پوری دنیا دیکھے لیکن اس بار انہوں نے اسے لاہور میں کروانے کا ارادہ کیا تاکہ لوگ بھی اس فیسٹیول کو اپنا کہہ سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والے تمام مصوروں کا ایک مقصد ہے کہ ڈیجیٹل آرٹ کو پروموٹ کریں تاکہ اسے لوگ دیکھیں۔ ’فیسٹیول میں آںے کے کوئی پیسے نہیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایسے فیسٹیولز مستقبل میں بھی جاری رکھنے کی کوششیں کی جائیں گی۔‘
ڈیجیٹل آرٹ فیسٹیول میں ڈیجیٹل پرنٹس، السٹریشنز، تھری ڈی اینیمیشنز اور انٹر ایکٹیو آرٹ شامل کیا گیا ہے۔
بیکن ہاؤس یونیورسٹی کے ڈین سکول آف ویژول آرٹس اینڈ ڈیزائن راشد رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’فیسٹیول میں نوجوان غیر ملکی آرٹس کو موقع مل رہا ہے کہ وہ یہاں اپنا کام دکھا سکتے ہیں جو ڈیجیٹل میڈیم میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’نئے میڈیا کا استعمال نوجوان فنکاروں کے لیے آزادانہ ہے کیونکہ انہیں ثقافت کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا۔ اگر آپ پرانے آرٹسٹ ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ آپ کے کام میں ماضی کی جھلک بھی ہو لیکن چونکہ نئے میڈٰیا کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہوتی اس لیے وہ خود کو کام میں بالکل آزاد محسوس کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راشد کے مطابق فیسٹیول میں پورے پاکستان کے آرٹسٹ شامل ہیں جنہیں مختلف یورپین ممالک کے فنکاروں سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔
راشد کہتے ہیں: ’کنونشنل آرٹ میں عوام الناس سمجھتے ہیں کہ وہ گیلری جائیں گے تو انہیں آرٹ سمجھ نہیں آئے گا۔ وہ خوف زدہ ہوتے ہیں۔
’اب کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی میں استعمال کر رہا ہے۔ سب سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں، سب لوگ تصویریں بناتے ہیں، ویڈیو بناتے ہیں، یعنی ان کی ان ٹولز کے ساتھ شناسائی ہے۔ اس لیے جب وہ یہ کام دیکھتے ہیں تو وہ اس سے خود کو جوڑ سکتے ہیں اور اسے محسوس کر سکتے ہیں۔‘
فرانس سے تعلق رکھنے والی مصورہ جسٹن ایمارڈ اپنے سومنوراما نامی شاہکار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’یہ دراصل ایک خلا نورد کی نیند ہے جو وہ خلا کے سفر کے دوران لیتا ہے۔
’میرا کام بھی تھری ڈی میں ریئل ٹائم میں بنایا گیا ہے، جس میں دماغ کی وہ لہریں بنائی گئیں ہیں جو خلا باز کے دماغ میں بنتی ہیں، اس کی خلا میں نیند کے دوران۔‘
جرمنی سے تعلق رکھنے والے مصور انینٹون زالہ نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ فیسٹیول بہت سے نوجوان فنکاروں کو ایمپاوور کر رہا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے ملیں اورایک نیٹ ورک بنائیں، جو ایک دوسرے کو آگے بڑھنے میں مدد کرے اور اس چیز کا بہت بڑا اور مثبت اثر ہوگا پاکستان کے نیو میڈیا آرٹ پر۔‘