امیگریشن حکام کے بقول سری لنکا نے جنگ سے بچنے کے لیے ملک میں موجود لاکھوں روسیوں اور کچھ یوکرینی باشندوں سے کہا ہے کہ وہ اگلے دو ہفتوں میں ملک چھوڑ دیں۔
امیگریشن کنٹرولر نے وزارت سیاحت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان روسی اور یوکرین کے شہریوں کو 23 فروری سے دو ہفتوں کے اندر سری لنکا چھوڑنے کا کہا ہے جو توسیعی سیاحتی ویزے پر قیام پذیر ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے صرف گذشتہ دو برسوں میں دو لاکھ 88 ہزار سے زیادہ روسی اور تقریبا 20 ہزار یوکرینی شہری سری لنکا گئے ہیں۔
امیگریشن کے کمشنر جنرل نے کہا کہ ’حکومت ویزا میں مزید توسیع نہیں دے رہی ہے‘ کیوں کہ ’پروازوں کی صورت حال اب معمول پر آ چکی ہے۔‘
تاہم صدر رانیل وکرما سنگھے کے دفتر نے سفارتی کشیدگی کو روکنے کے لیے وزارت سیاحت کے نوٹس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سری لنکن اخبار ڈیلی مرر کے مطابق صدر کے دفتر نے کہا کہ یہ نوٹس کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا تھا اور حکومت نے سرکاری طور پر ویزا میں توسیع منسوخ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
ان سیاحوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے جو عام 30 دن کے سیاحتی ویزا کی مدت سے زیادہ وقت کے لیے ٹھہرے ہوئے ہیں۔
تاہم ہزاروں روسیوں اور چند یوکرینی شہریوں کے طویل عرصے تک ملک میں قیام اور حتیٰ کہ اپنے ریستوراں اور نائٹ کلب کھولنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
وزیر سیاحت ہیرن فرنینڈو نے ڈیلی مرر کو بتایا کہ وزارت کو کچھ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ روسی سیاح ملک کے جنوبی حصے میں غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی کاروبار چلا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ بات چیت کے بعد حکام کی جانب سے چھاپے مارے گئے ہیں۔
یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب سوشل میڈیا پر روسیوں کے زیر انتظام چلنے والے کاروباروں پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے جن میں ’صرف سفید فام‘ کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کے تحت مقامی افراد پر سختی سے منع کیا گیا ہے۔
ان کاروباروں میں بار، ریستوراں، واٹر سپورٹس اور گاڑیاں کرایہ پر لینے کی سروسز شامل ہیں۔
سیاحت کو فروغ دینے اور 2022 کے بعد اپنے بدترین معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سری لنکا نے 30 دن کا ویزا اور چھ ماہ تک توسیع دینا شروع کی تھی۔
اپریل 2022 میں یہ ملک نے 46 ارب ڈالر (36 ارب پاؤنڈ) کے غیر ملکی قرضے ادا نہیں کیے۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے کئی مہینوں تک سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے اور جن کا نتیجہ بالآخر تین ماہ بعد اس وقت کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے استعفے کی صورت میں سامنے آیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent