یہ 50 کی دہائی کا برصغیر ہے۔ بدھ کی شام پورا محلہ ایک گھر میں جمع ہے۔ خواتین برتن سمیٹ چکیں۔ مرد چہل قدمی کے لیے نہیں نکلے۔ آج ماؤں کو انتظار نہیں کرنا پڑتا کہ بچے چھپن چھپائی کھیل کر گھروں کو جلد لوٹ آئیں۔ نوجوان کاپی اور کچی پینسل لیے سراپا انتظار ہیں۔
یہاں تک کہ سناٹے میں ریڈیو سیلون سے آواز گونجتی ہے، ’بہنو اور بھائیوں، آپ کی خدمت میں امین سیانی کا آداب!‘ اس کے بعد فضا مدھر گیتوں سے بھر جاتی ہے۔ تین دہائیوں تک انڈیا اور پاکستان کے لاکھوں دلوں کی دھڑکن اس آواز سے جڑی رہی۔
برصغیر میں ریڈیو سیلون کے راج اور امین سیانی کی آواز کا سفر ایک ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 50 کی دہائی میں ریڈیو سیلون کی مقبولیت کا اندازہ مصنف ڈیوڈ لیلی ویلڈ کے مشہور فقرے سے ہوتا ہے، ’اگر دس انڈین گھرانوں میں ریڈیو تھا تو نو میں ریڈیو سیلون چل رہا ہوتا اور دسویں کا ریڈیو سیٹ خراب ہوتا۔‘
ریڈیو سیلون کی یہ ساری مقبولیت امین سیانی کے بناکا گیت مالا پہ کھڑی تھی۔ اگرچہ طویل عرصے تک ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام چھائے تھے مگر امین سیانی نے ساری آڈینس اپنی طرف کھینچ لی۔
1950 میں اپنی ہندی سروس کا آغاز کرنے والا ریڈیو سیلون راتوں رات شہرت کے ایسے بلند پائیدان تک کیسے پہنچا؟ اس کا آغاز آل انڈیا ریڈیو پر ہندی فلموں کے گیتوں پر لگنے والی پابندی سے ہوا۔
جب آل انڈیا ریڈیو نے فلمی گیتوں کی نشریات پر پابندی لگا دی
1952 میں بال کرشنا وشواناتھ کیسکر انڈیا کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ بنارس گھرانے سے دھرپد موسیقی کی باقاعدہ تربیت لینے والے بال کرشنا ایک سخت گیر برہمن ہندو تھے۔ ان کے نزدیک ’خیال گائیکی‘ بھی شدھ شاستریہ سنگیت کے سمندر میں داخل ہونے والے گدلی لہر تھی جسے مسلم راج نے دوام بخشا۔ ایسا شخص بھلا فلم سنگیت کو کیا سمجھتا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی باقیات کو دیس نکالا دینے کے لیے انہوں نے آل انڈیا ریڈیو پر کرکٹ کی براہ راست کمنٹری اور ہارمونیم کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ یوں سامراجی کھیل کرکٹ ماضی کی گرد میں گم ہو جائے گا اور مغربی ساز ہارمونیم سے نجات کے بعد تان پورہ اور سارنگی جیسے سازوں کو نئی زندگی ملے گی۔ ان کا تیسرا فرمان فلموں گیتوں کی ریڈیو پر بندش تھی۔
ان کے خیال میں فلمی گیت ’بازاری اور مخرب اخلاق‘ ہیں۔ انہوں نے لائٹ میوزک کے لیے ریڈیو پر الگ سے پروگرام نشر کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ’اخلاقی اور ادبی اعتبار سے بلند پایہ‘ نغمات شامل ہوں گے اور ان کی موسیقی ’مغربی اور مشرقی سنگیت کے سنگم‘ کی فلمی روش سے انحراف پہ مبنی ہو گی۔ انہوں نے لائٹ میوزک کے اس پروگرام کے لیے روی شنکر کا انتخاب کیا۔
شاستریہ سنگیت کے پارکھ اور اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب کے مصنف بال کرشن نے آل انڈیا ریڈیو پر ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی کے احیا اور بقا کے لیے انتہائی عمدہ پروگرام شروع کروائے مگر ان کے یہ تینوں فیصلے غلط ثابت ہوئے۔
کرکٹ کمنٹری بحال ہوئی، ہارمونیم بجنے لگا اور ان ہی کے دور میں 1957 کے دوران فلمی گیتوں کا مشہور پروگرام وودھ بھارتی شروع کرنا پڑا۔
ریڈیو سیلون کی ہندی سروس اور امین سیانی کی انٹری
سری لنکا میں واقع ریڈیو سیلون نوآبادیاتی آقاؤں کی دلجوئی کے لیے 1925 میں قائم کیا گیا تھا، جس کی ہندی سروس کا آغاز گوروں کی واپسی کے بعد 1950 میں ہوا۔ اگلے برس پروفیشنل براڈکاسٹرز کی بھرتی اور اشتہار حاصل کرنے کے لیے بمبئی میں ریڈیو سیلون نے ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھول لی۔
حمید سیانی انگریزی میں پہلے سے ریڈیو سیلون کے لیے ایک ہفتہ وار پروگرام پروڈیوس کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی امین کو بھی ساتھ فٹ کر لیا۔ سامعین کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے جب ہندی پروگرام شروع ہوئے تو اداکار موہن کرشنا نے ’اوولٹین پھلواری‘ کے نام سے ایک فلمی سلسلہ شروع کیا جو زیادہ کامیاب نہ تھا۔ کرشنا کے ساتھ ایک نوجوان بھی صدا کار کے روپ میں کام کر رہا تھا جسے دنیا سنیل دت کے نام سے جانتی ہے۔
امین سیانی گلوکار بننا چاہتے تھے یا اداکار مگر یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ فلموں کی فضا میں رہنے کا واحد طریقہ ہندی فلموں سے متعلق کرشنا والا پروگرام ہتھیانا تھا جو انتہائی ٹھس چل رہا تھا۔ انہوں نے آڈیشن دیا اور کرشنا کی جگہ سلیکٹ ہو گئے۔ بہتر انداز میں پروگرام کرنے پر انہیں بطور انعام اوولٹین کا ٹن ملا۔
1952 میں سوئس کمپنی نے انڈیا میں دانت صاف کرنے والی ٹیوب بناکا لانچ کی۔ اخبارات اور میگزین کے بجائے ریڈیو سیلون کے ذریعے بناکا ٹوتھ پیسٹ کی مشہور کا انوکھا طریقہ اپنایا گیا۔
’بناکا گیت مالا‘ کے نام سے 30 منٹ کا پروگرام شروع ہوا، جس میں ایک ساتھ ہندی فلموں کے گیت چلائے جاتے اور سامعین سے کہا جاتا تھا کہ الگ الگ تمام گیتوں کی نشان دہی کریں اور 100 روپیہ جیتنے کا سنہری موقع پائیں۔ تین دسمبر 1952 کو امین سیانی نے بناکا گیت مالا کا پہلا پروگرام کیا جو سوپر ہٹ ثابت ہوا۔ پہلے ہی پروگرام پر 10 ہزار سے زائد چٹھیاں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خطوط کی تعداد 50 ہزار کا ہندسہ بھی عبور کر گئی۔
غیر معمولی پذیرائی کے بعد مقابلہ بازی کا یہ سلسلہ جاری رکھنا ناممکن تھا۔ فارمیٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے ’ہٹ پریڈ‘ بنا دیا گیا۔ اب مختلف علاقوں سے ایل پی ریکارڈنگ کی فروخت کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جاتے اور ان کے مطابق گانوں کی رینکنگ کی جاتی۔ پروگرام کا وقت بڑھا کر پورا گھنٹہ کر دیا گیا۔
سال کے آخری ہفتے بناکا گیت مالا میں شامل گیتوں کے پورے سال کے دوران فروخت ہونے والے ریکارڈز کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جاتے اور یوں سال کے مقبول ترین گیتوں کا اعلان ہوتا۔
بناکا گیت مالا اتنا زیادہ کامیاب کیوں ہوا؟
اس کی پہلی وجہ آل انڈیا ریڈیو کی فلمی گیتوں پر پابندی تھی۔ فلمی موسیقی میں عام آدمی کے لیے غیر معمولی کشش تھی۔
ریڈیو سیلون کیوں کہ انڈیا کی سرحد سے باہر تھا، اس لیے وہ فلمی گیت چلانے میں آزاد تھا اور اس نے یہ خلا بہت کامیابی سے پُر کیا۔
دوسری وجہ امین سیانی خود تھے۔ پروگرام کا غیر روایتی انداز، ان کا بے تکلف طرزِ تکلم اور ہندوستانی زبان کا استعمال۔
آل انڈیا ریڈیو پر سنسکرت زدہ ہندی بولنے کا رواج ڈالا گیا جسے سمجھنے والے سامعین بہت کم تھے۔ گجراتی خاندان سے تعلق رکھنے والے امین سیانی کی ہندی بہت کمزور تھی۔ انہوں نے ابتدا میں محض بول چال کی زبان سیکھی اور اسی کو استعمال کیا۔ وہ خالص کے بجائے عام آدمی کی زبان بولتے تھے۔
پروگرام کا فارمیٹ بہت شاندار تھا۔ گیت کے ساتھ نغمہ نگار، موسیقار، گلوکار اور فلم کا نام لیا جاتا۔ سب کے اپنے اپنے پسندیدہ فنکار تھے۔ آپس میں بہن بھائیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا کہ رفیع کا گیت نمبر ون ہو گا یا لتا کا؟ سب کو انتظار ہوتا کہ کیا ان کا پسندیدہ گیت بناکا کا حصہ بنے گا؟ اگر بنے گا تو کامیابی کے کس پائیدان پر ہو گا؟
بعد میں امین سیانی کی مخملی آواز ریڈیو سیلون سے آل انڈیا ریڈیو پر منتقل ہوئی اور نئی تاریخ رقم کی۔ ان کے سننے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے، لیکن افسوس کے ان کے بناکا گیت مالا کے اوریجنل پروگرام محفوظ نہیں۔ وہ کاری کرم جس سے جنوبی ایشیا میں ریڈیو اور فلم کی دنیا کا بہترین سنگم وجود میں آیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔