طالبان افغانستان کو کرکٹ کی دنیا کی ’سپر پاور‘ بنانے کے خواہاں

کابل میں طالبان حکومت کے قیام کو دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں افغانستان تمام تر پابندیوں کے باوجود دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو ٹکر دے رہا ہے۔

26 جون، 2019 کی اس تصویر میں انگلینڈ کے شہر لیڈز میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے دوران افغان شائقین اپنی ٹیم کی حمایت میں پرچم لہراتے ہوئے(اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے دوران حکومتی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی لیکن طالبان کے دوسرے دور حکومت میں کم از کم کرکٹ کے حوالے سے یہ صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں یہ ملک تمام تر پابندیوں کے باوجود دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو ٹکر دے رہا ہے۔

بین الاقوامی مقابلوں کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ٹی 20 لیگز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

راشد خان، محمد نبی، حضرت اللہ زازئی، رحمنٰ اللہ گرباز، گلبدین نائب اور مجیب الرحمٰن وہ چند نام ہیں جو بڑی بڑی ٹی 20 لیگز میں اپنی ٹیموں کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے دوسرے دور حکومت میں اس کھیل کی بڑھتی مقبولیت دراصل پشتون آبادی میں کرکٹ میں دلچسپی کی عکاس ہے۔

افغانستان کی وزارت امرباالمعروف کے ترجمان عبدالغفار فاروق کا کہنا ہے کہ ’کرکٹ پورے ملک کو جوڑتا ہے۔‘

2021 میں طالبان کی حکومت کے قیام کے ابتدائی دنوں میں طالبان انتطامیہ کے سینیئر وزیر سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی نے افغان کرکٹ بورڈ کا دورہ کیا تھا جبکہ ان کی افغان کھلاڑیوں سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔

انس حقانی جو خود بھی کرکٹ کے فین ہیں، نے کہا تھا کہ طالبان جنگجو بہت اچھے کرکٹ ستارے بن سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہمارے ملک میں جنگ نہ ہوتی تو ہم میں سے بہت سے قومی ٹیم کا حصہ ہوتے۔ افغانستان میں کرکٹ کا مستقبل بہت روشن ہے۔‘

افغانستان کی کرکٹ میں بڑی فتوحات

گذشتہ سال انڈیا میں کھیلے جانے کرکٹ ورلڈ کپ کی بات کی جائے تو افغانستان میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجو بھی اس میں بھرپور دلچسپی لے رہے تھے۔

اس دوران افغانستان میں پارکس، شادی ہالوں، حجام کی دکانوں اور ٹیلی ویژن فروخت کرنے والی دکانوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع رہی۔

جب افغانستان کی ٹیم نے انگلینڈ، پاکستان، سری لنکا اور نیدرلینڈز جیسی ٹیموں کو شکست دی تو ان افراد کی خوشی اور جوش دیدنی تھا۔

طالبان جنگجوؤں نے تو اپنے خوشی کا اظہار ہوائی فائرنگ سے بھی کیا۔

کابل کے 48 سالہ رہائشی محمد گل احمدزئی کہتے ہیں کہ ’افغانستان میں لوگوں کے پاس لطف لینے کو کچھ نہیں ہے لیکن کرکٹ ہمیں خوشی دیتی ہے۔‘

کچھ افغان نوجوانوں کے خیال میں کرکٹ ان کی غربت کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

17 سالہ فرہاد امیرزئی کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد نوجوانوں نے تعلیم میں دلچسپی لینا کم کر دیا۔ نوجوان سوچتے ہیں کہ اگر ہم یونیورسٹی یا سکول سے تعلیم حاصل بھی کر لیتے ہیں تو ہمیں موجودہ حکومت کے دوران اچھی ملازمت نہیں ملے گی۔ اس لیے وہ اپنی قسمت کو کرکٹ سے آزماتے ہیں۔‘

19 سالہ طالبان جنگجو عبدالمبین منصور بھی کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن ان کے مطابق ان کی ملازمت کے بعد ان کے پاس اس کے لیے وقت نہیں بچتا۔

تاہم افغان خواتین کے لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

طالبان حکومت کے قیام کے بعد پہلے چند فیصلوں میں خواتین پر کھیلوں میں شرکت پر پابندی کا فیصلہ بھی شامل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کے اس فیصلے کے بعد گذشتہ سال آسٹریلوی ٹیم نے خواتین پر پابندیوں کے خلاف بطور احتجاج افغانستان کے خلاف میچز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

35 سالہ ویدہ عمری پر امید ہیں کہ وہ طالبان کے دور اقتدار میں کسی غیر ملکی ٹیم کو کابل میں کھیلتے ہوئے نہیں دیکھیں گی۔

ویدہ عمری افغانستان چھوڑ چکی ہیں لیکن وہ 80 فیصد خواتین ایتھلیٹس جو ان کی نگرانی میں کھیلوں میں حصہ لیتی تھیں اب بھی افغانستان میں مقیم ہیں۔

ویدہ کے مطابق ’ان خواتین کے اہل خانہ ان سے طالبان کی ناراضی کو دعوت دینے کی شکایت کرتے ہیں اور ان پر شادی کرنے کا دباؤ ہے۔ ان میں سے کئی مجھے کال کر کے روتی ہیں۔‘

دوسری جانب طالبان کے شہری ترقی کے وزیر حمد اللہ نعمانی کہتے ہیں کہ وہ کابل میں ایک نیا کرکٹ سٹیدیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

کابل میں نئے کرکٹ سٹیڈیم کا منصوبہ گو کہ سابقہ حکومت کے دوران بنایا گیا تھا لیکن طالبان اس منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کو نجی فنڈنگ کے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی پابندیوں کے باعث عالمی تنہائی کا سامنا ہے لیکن افغانستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی گرانٹ مل چکی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ برسوں میں افغانستان کرکٹ بورڈ کو اسی نوعیت کی مزید گرانٹس ملنے کی توقع ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ