اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی افغانستان کے معاملے پر طلب کردہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں افغان طالبان نے اپنی شرکت کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 18 اور 19 فروری کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں یہ اجلاس طلب کیا ہے جس میں جاری انسانی اور انسانی حقوق کے بحران اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر فریدون سنیرلیواولو کی حالیہ رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے خصوصی ایلچی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ افغان سول سوسائٹی، خواتین کے گروپوں کے نمائندوں اور طالبان حکام کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی ایلچی حسن کاظمی قمی نے تاہم کہا تھا کہ ’طالبان نے دوحہ اجلاس میں شرکت کے لیے دو اہم شرائط رکھی ہیں۔‘
انہوں نے ان شرائط کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔
اقوام متحدہ یہ کانفرنس کیوں منعقد کر رہا ہے؟
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے مئی 2023 میں (دوحہ میں) افغانستان کے لیے دنیا کے خصوصی ایلچیوں کی ایک ابتدائی کانفرنس بلائی تھی تاکہ افغانستان میں ممکنہ طور پر عدم استحکام پیدا کرنے والے حالات سے نمٹا جا سکے، جس میں ناکام معیشت اور خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پابندیوں والی پالیسیاں شامل ہیں۔
طالبان کی حکمرانی کے 31 ماہ مکمل ہونے کے بعد بین الاقوامی برادری اس حقیقت سے نبرد آزما ہے کہ طالبان اپنی حکمرانی کو مستحکم کر رہے ہیں اور بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان خدشات کا براہ راست اثر اقوام متحدہ پر 2022 کے آخر میں اور 2023 میں اس وقت پڑا جب طالبان حکام نے غیر سرکاری تنظیموں اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے عملے کے ساتھ امداد اور امداد پہنچانے کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندیاں عائد کیں۔
گذشتہ موسم بہار میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کا آزادانہ جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا تھا اور اسے نومبر 2023 تک کونسل کو تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی دوحہ میں افغانستان سے متعلق خصوصی ایلچیوں کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔
Ambassador Asif Durrani, Pakistan's Special Representative on Afghanistan, will lead the Pakistan delegation at the Meeting of the Special Envoys on Afghanistan to be held on 18-19 February 2024 in Doha. The meeting is being convened by the UN Secretary-General to discuss…
— Ministry of Foreign Affairs - Pakistan (@ForeignOfficePk) February 16, 2024
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق اجلاس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں پائیدار امن اور خوشحالی کی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ فعال طور پر رابطے کی ہماری کوششوں کا حصہ ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر فریدون سنیرلیواولو کی رپورٹ میں امداد دہندگان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ طالبان سے نمٹنے کے چیلنجوں کے باوجود افغان عوام کے فائدے کے لیے افغانستان کے ساتھ روابط، ترقیاتی امداد اور معاشی انضمام کو جاری رکھیں اور مضبوط بنائیں۔
اس جائزے میں افغانستان کو دوبارہ بین الاقوامی معاشی اور سیاسی نظام میں ضم کرنے کے لیے ایک روڈ میپ کی سفارش کی گئی تھی، جس کا انحصار طالبان کی جانب سے افغانستان کی بین الاقوامی قانونی اور معاہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر ہو۔
اس عمل سے طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق، انسانی حقوق اور سلامتی اور دیگر خدشات سے متعلق اہم وعدوں پر عمل درآمد اور نفاذ کے اقدامات کے ساتھ روابط اور معاونت میں اضافہ ہوگا۔ جائزے میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کو بین الاقوامی مصروفیات کو فروغ دینے اور مختلف طریقوں اور پلیٹ فارمز کو جوڑنے کے لیے مقرر کیا جائے۔
سلامتی کونسل نے ایک قرارداد میں رپورٹ کی سفارشات کی توثیق کی (لیکن روس اور چین کی حمایت کے بغیر)۔ انتونیو گوتیریش اور بہت سے امداد دہندگان کو امید ہے کہ دوحہ کانفرنس سے اجتماعی روابط کے عمل یا روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد ملے گی، جیسا کہ جائزے میں تجویز کیا گیا ہے۔
یہ کانفرنس افغانستان کی صورت حال کو بہتر بنانے اور طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اگلے اقدامات کا خاکہ تیار کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ طالبان کے کئی وزرا اور اہم عہدیدار خواتین کی تعلیم پر دنیا کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے والے بعض افغان رہنما، سفارتی ذرائع اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی کابینہ کے ارکان، گورنرز، فوجی کمانڈرز اور علما کی اکثریت خواتین کی تعلیم کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتی ہے۔
سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مولوی یعقوب، سراج الدین حقانی، نائب وزرا ملا برادر، مولوی عبدالکبیر اور ملاحنفی کے علاوہ وزیر تعلیم ملا حسن کا بھی موقف ہے کہ خواتین کو شریعت کے دائرے میں رہ کر تعلیم کا حق دیا جائے۔
اقوام متحدہ اور غیر ملکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ کابل میں مقیم طالبان کی اکثریت خواتین کے کام اور پابندیوں کے بارے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں تاہم قندھار میں موجود تحریک کے امیر ملا ہیبت اللہ کے موقف میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے۔
ماضی میں ایسے موقع بھی آئے ہیں جب طالبان کسی غیرملکی اہلکار سے ملنے یا کسی کم اہم کانفرنس میں شرکت کے لیے پروٹوکول کو بالا طاق رکھ دیتے تھے۔ تاہم، اب وہ دوحہ کانفرنس میں شرکت کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان ماضی کے مقابلے دوحہ کانفرنس میں شرکت میں کم دلچسپی کیوں دکھا رہے ہیں؟
ایک: طالبان دوحہ کانفرنس میں دنیا کے لیے ایک جائز اور قبول شدہ حکومت کے نمائندوں کے طور پر شرکت کرنے کی توقع رکھتے ہیں نہ کہ اقوام متحدہ اور بعض ممالک کی بلیک لسٹ میں موجود ایک گروپ کے طور پر۔ دیگر کانفرنسوں میں انہیں حکومت کی بجائے ایک گروپ کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔
دو: طالبان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کا امکان تشویش کا باعث ہے۔ طالبان انتظامیہ کے تحت افغانستان کی صورت حال کے بارے میں ایک جائزے نے خصوصی ایلچی کی تقرری کی سفارش کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس رپورٹ کے مندرجات پر غور کرتے ہوئے تنظیم کے سیکرٹری جنرل کو قرارداد 2721 (2023) کے ذریعے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کرنے پر مجبور کیا، جس کی طالبان نے واضح طور پر مخالفت کی ہے۔ چین اور روس نے بھی اس قرارداد پر ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ ایران نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اس قسم کی تعیناتی کو افغانستان کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
اس کانفرنس کے دوران اس تقرری پر جامع بات چیت متوقع ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق دوحہ کانفرنس میں بحث اس بات کے گرد گھوم سکتی ہے کہ کس کو، کس قابلیت کے ساتھ اور کس ملک سے خصوصی ایلچی مقرر کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو طالبان اور اس گروپ کے حامی ممالک اس کارروائی کے خلاف کھڑے ہوں گے اور ان کے پاس کانفرنس کی قرارداد کو مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
تین: واضح ہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان مخالف قوتوں کو مدعو نہیں کیا کیونکہ یہ ادارہ طالبان مخالف دھڑوں کی بجائے طالبان کے ساتھ ثالثی کی طرف زیادہ مائل ہے۔ تاہم بعض طالبان مخالف دھڑوں نے بارہا دوحہ کانفرنس میں شرکت کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خواتین اور سول سوسائٹی کو البتہ احتجاج کو روکنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں طالبان مخالف دھڑوں کی عدم موجودگی نے طالبان کو مزید مضبوط اور میزبانوں سے مطالبہ کرنے کا سبب بنایا ہے۔
قطر لگاتار کئی سالوں سے اس گروپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ قطر کانفرنس کے میزبان کے طور پر اس کے طرز عمل، مواد اور ممکنہ نتائج میں مداخلت کر سکتا ہے۔ اس لیے طالبان زیادہ سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، نہ کہ کم پر اکتفا کریں۔
دوحہ اجلاس پر افغان وزارت خارجہ کا اعلامیہ
دوحہ اجلاس کے حوالے سے افغانستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’گذشتہ ڈھائی سال سے امارت اسلامیہ افغانستان کی سیاسی، انتظامی، سکیورٹی، معاشی اور سماجی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، دوسری جانب خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔
’اس کے علاوہ اقوام متحدہ خصوصا امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ کئی چینلز کے ذریعے یک طرفہ اور غیر قانونی پابندیوں، بلیک اور جائزہ لسٹوں اور افغانستان بینک کے ذخائر کے اجرا پر باقاعدہ بات چیت کی ہے۔
’امارت اسلامیہ کا خیال ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوتیرش کی سربراہی میں افغانستان کے لیے کئی ممالک کے خصوصی نمائندوں کی کانفرنس اختلافی نکات پر نتیجہ خیز بات چیت کرنے کا ایک اور اچھا موقع تھا۔‘
بیان کے مطابق ’وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ پر واضح کیا ہے کہ اگر امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے واحد ذمہ دار فریق کی حیثیت سے شرکت کرتی ہے اور دوحہ اجلاس میں افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان اعلی سطح پر واضح بات چیت ہو تو کانفرنس میں شرکت مفید ہوگی، لیکن اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے امارت اسلامیہ کی جانب سے شرکت نتیجہ خیز نہیں سمجھی گئی۔
’یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر اقوام متحدہ موجودہ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بعض قوتوں کے زیر اثر نہ رہے، دباؤ میں نہ آئے اور اس نقطے پر غور کرے کہ افغانستان کا موجودہ نظام گذشتہ 20 سالوں کی طرح کسی کے زیر اثر نہیں ہے، تو امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کا امکان ہے۔
’امارت اسلامیہ اور خطے کے ممالک کے درمیان گذشتہ ڈھائی سال کے تعلقات نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر گذشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات سے گریز کیا جائے۔ یک طرفہ جبری فیصلوں، الزامات اور دباؤ کی بجائے حقیقت پسندانہ اور عملی انداز اپنایا جائے تو دیگر فریقین کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔