روس کی خلائی ایجنسی نے تسلیم کیا ہے کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے روسی حصے میں ہوا کا مسلسل اخراج ہو رہا ہے۔
روسی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ سوراخ تیرتی ہوئی خلائی لیب میں موجود عملے کے لیے خطرہ نہیں۔
روس کی سرکاری کارپوریشن روس کوسموس کا کہنا ہے کہ ماہرین ہوا کے اخراج کی نگرانی کر رہے ہیں اور عملہ ’باقاعدگی سے ہوا کے اخراج کے ممکنہ امکانات کا پتہ لگانے اور ان کی مرمت کا کام کر رہا ہے۔‘
روسی خبر رساں اداروں نے ایک بیان میں کہا کہ ’عملے یا خود سٹیشن کو کوئی خطرہ نہیں۔‘
روس کوسموس کا یہ بیان خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے سٹیشن پروجیکٹ مینیجر جوئیل مونٹالبانو کے تبصرے کے بعد سامنے آیا جنہوں نے بدھ کو کہا تھا کہ روسی حصے میں ہوا کے اخراج میں تیزی آئی۔
تاہم انہوں نے زور دیا کہ یہ سوراخ چھوٹا ہے اور عملے یا سٹیشن کے آپریشنز کی حفاظت کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔
روس کوسموس نے کہا کہ چوں کہ خلائی سٹیشن پرانی ہو رہی ہے لہٰذا عملے کو اس کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔
روسی خلائی حکام نے سب سے پہلے اگست 2020 میں زویزڈا موڈیول میں ہوا کے اخراج کی اطلاع دی تھی۔
بعد میں اسی سال روسی عملے نے اس کا مقام تلاش کیا اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ نومبر 2021 میں سٹیشن کے روسی حصے کے مختلف مقام پر ایک اور ہوا کا اخراج ملا۔
روس کوسموس اور ناسا دونوں نے کہا کہ ہوا لیک ہونے سے عملے کو کوئی خطرہ نہیں اور سٹیشن پر جاری کام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اس کے علاوہ دیگر خرابیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ اکتوبر میں روس کی نئی سائنس لیب نوکا (سائنس) کے بیرونی بیک اپ ریڈی ایٹر سے اسے ٹھنڈا رکھنے والا مادہ لیک ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالاں کہ اس کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے والا مرکزی نظام معمول کے مطابق کام کر رہا تھا۔ خلائی حکام کا کہنا تھا کہ عملے اور سٹیشن کو کوئی خطرہ نہیں۔
یہ واقعہ سٹیشن پر کھڑے روسی خلائی جہاز سے کولنٹ لیک ہونے کے بعد پیش آیا۔
دسمبر 2022 میں سٹیشن پر موجود سویوز کریو کیپسول سے ٹھنڈا رکھنے والا لیک ہوا اور فروری 2023 میں رسد کے لیے استعمال ہونے والے خلائی جہاز ’پروگریس‘ سے اسی طرح کی ایک اور لیک دریافت ہوئی۔
روس کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ رساؤ ممکنہ طور پر چھوٹے شہاب ثاقبوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ہوا نہ کہ مینوفیکچرنگ کی خامیوں کی وجہ سے۔
مذکورہ خلائی سٹیشن جو سرد جنگ کے بعد بین الاقوامی تعاون کی علامت کے طور پر کام کرتا رہا ہے، اب یوکرین میں ماسکو کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے ماحول میں روس اور مغرب کے درمیان تعاون کے آخری باقی ماندہ شعبوں میں سے ایک ہے۔
ناسا اور اس کے شراکت داروں کو امید ہے کہ وہ 2030 تک مدار میں موجود خلائی سٹیشن سے کام لیتے رہیں گے۔
خلائی سٹیشن کے موجودہ عملے میں ناسا کے خلاباز جیسمین موگھبیلی اور لورال او ہارا، یورپی خلائی ایجنسی کے اندریاس موگنسن، روسی خلاباز کونسٹانٹین بوریسوف، اولیگ کونینکو اور نکولائی چوب اور جاپانی خلاباز ستوشی فروکاوا شامل ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent