امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے ہتھیاروں کے تجربے کے دوران ایک خلائی میزائل سے اپنے ہی سیٹلائٹ کو نشانہ بنایا، جس کے تباہ ہونے سے زمین کے مدار میں ملبہ جمع ہوگیا ہے، جس نے نہ صرف بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ ’آنے والے سالوں‘ میں بھی خطرہ بنا رہے گا۔
دوسری جانب روس نے ایسے کسی تجربے کی تصدیق نہیں کی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ خلائی میزائل کے روسی تجربے کے بعد خلائی سٹیشن پر سات افراد کے عملے کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ احتیاط کے طور پر خلائی سٹیشن سے جڑے کیپسولز میں پناہ لے لیں تاکہ ضروری ہو تو وہاں سے فوری طور پر نکلا جا سکے۔
ناسا کے مطابق ڈھائی سو میل کے فاصلے پر زمین کے مدار میں گھومتا خلائی سٹیش ہر 90 منٹ میں ملبے کے گچھے کے اندر یا اس کے قریب سے گزرتا رہا، لیکن ناسا کے ماہرین نے طے کیا کہ تیسری مرتبہ گزرنے کے بعد عملے کا خلائی سٹیشن کے اندرونی حصے میں واپس چلے جانا محفوظ ہوگا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ عملے کو ہدایت بھی دی گئی کہ خلائی سٹیشن کے متعدد حصوں میں داخل ہونے کے راستے عارضی طور پر بند کر دیں۔
ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’ناسا آنے والے دنوں میں اور اس کے بعد بھی ملبے پر نظر رکھے گا تاکہ مدار میں موجود اپنے عملے کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔‘
آئی ایس ایس میں اس وقت چار امریکی، ایک جرمن اور دو روسی خلاباز موجود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مدار میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں کے تجربے کے نتیجے میں بننے والا ملبہ خلا میں خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف خلا میں دیگر اشیا سے ٹکراتا ہے بلکہ اس کے ٹکرے تیر رفتار میں زمین پر بھی گرسکتے ہیں۔
روسی فوج اور وزارت دفاع نے صورت حال پر تبصرے کے لیے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
ہزاروں کی تعداد میں ٹکڑے
امریکی خلائی کمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیدھی پرواز کرنے والا روس کی جانب سے داغا گیا اینٹی سیٹلائٹ میزائل 15 سو ایسے ٹکڑوں کا سبب بنا جنہیں ٹریک کیا جاسکتا ہے، جبکہ ایسا ممکن ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کئی چھوٹے ٹکڑے اور بھی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خلائی کمان کے سربراہ امریکی فوج کے جنرل جیمز ڈکنسن نے کہا ہے کہ روس نے ’تمام ملکوں کے لیے خلا کی سلامتی، تحفظ اور استحکام کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میزائل تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مبلہ آنے والے کئی سالوں تک بیرونی خلا میں سرگرمیوں کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔ سیٹلائٹ اور خلائی مشنز خطرے میں ہوں گے اور تصادم سے بچنے کے لیے مزید کوششیں کرنی پڑیں گی۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے روسی میزائل تجربے کو ’لاپروا اور غیر ذمہ دارانہ‘ تجربہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ میزائل تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلا میں رویے کے حوالے سے ٹھوس قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
نیلسن کے مطابق اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ روس خلائی سٹیشن پر موجود نہ صرف اپنے بلکہ امریکی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے خلا بازوں کو خطرے میں ڈالے گا۔
یہ واقعہ خلا بازوں کے تازہ گروپ کی خلائی سٹیشن پر آمد کے صرف چار دن بعد پیش آیا۔
امریکی راجا چیئر، ٹوم مارشبرن، ناسا کی خلا باز کیلہ بیرن اور یورپی خلائی ادارے کے عملے کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے رکن متھایئس ماؤرر چھ ماہ کے سائنسی مشن پر خلائی سٹیشن پر پہنچے تھے۔
روس خلا میں اینٹی سیٹلائٹ میزائل استعال کرنے والا واحد ملک نہیں، امریکہ نے ایسا پہلا تجربہ 1959 میں کیا تھا جب سیٹلائٹ شاذونادر تھیں۔ بھارت نے 2019 میں اپنے ایک سیٹلائٹ کو نشانہ بنایا۔
اس طرح کے تجربے خلا میں موجود سیٹلائٹس سے چلنے والے کئی ایسے آپریشنز کے لیے خطرہ ہیں، جن سے روزمرہ کی زندگی چلتی ہے، جن میں بینکنگ اور جی پی ایس شامل ہیں۔