ایک آسٹریلین خاتون نے بچے کی پیدائش کے بعد دوبارہ جنسی تعلق استوار کرنے کے لیے اپنی انتھک اور تکلیف دہ کوششوں پر روشنی ڈالی تاکہ وہ اس حوالے سے ماں بننے والی خواتین کو پیش آنے والی پیچیدگیوں کے حوالے سے عام آدمی کو سمجھا سکیں۔
ویب سائٹ دی سٹل ممی کے لیے لکھے گئے بلاگ میں زو جارج نے اپنے پہلے بچے کی تکلیف دہ پیدائش کے بارے میں بتایا۔ پیدائش کے دوران فورسیپ ڈلیوری (قینچی یا پلاس نما آلے کی مدد سے بچے کی پیدائش کا عمل) کا طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس عمل نے ان کے تولیدی عضو کو توڑ کر رکھ دیا۔
جب انہوں نے چھ ماہ بعد اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ جسمانی تعلق استوار کرنے کی کوشش کی تو ’وہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔‘
انہوں نے لکھا ’اس معاملے کو دوبارہ شروع کرنے میں لمبا عرصہ لگا اور میرے شوہر نے بھی اپنی ہمت باندھنے میں کافی وقت لیا۔ مجھے شدید ڈر لگ رہا تھا اور دوبارہ جنسی تعلق قائم کرنے کے خیال نے مجھے مزید خوفزدہ کردیا۔‘
مزید چھ ماہ جدوجہد کرنے کے بعد زو جارج نے ماہر امراض نسواں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اور بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ان کے جسم کے اندر ٹانکوں کی وجہ سے زخم بن گیا تھا جو اس ساری پریشانی کا سبب بن رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسے ٹھیک کرنے کے لیے یا تو سرجری کی ضرورت تھی یا مجھے اسے اس وقت تک برداشت کرنا تھا جب تک کہ میں دوبارہ امید سے نہ ہو جاؤں۔ ممکنہ طور پر یہ اس لیے ضروری تھا کہ اگلے بچے کی پیدائش اگر پہلے جیسے عمل سے ہی ہوتی تو وہ ٹانکے خود بخود ختم ہو جاتے اور دوبارہ انہیں بند کرتے ہوئے مزید احتیاط سے کام لیا جاتا۔‘
دو کم سن بچوں کی والدہ زو جارج نے بتایا ’میں نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا اور مزید ایک ماہ تک یہ سب کچھ برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس کے بعد مجھے ویجانزمس (فرج کا سکڑاؤ) کا مسٔلہ شروع ہو گیا۔‘
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق یہ مرض تولیدی عمل کے دوران خواتین کے اندرونی اعضا کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے آپ کی جنسی زندگی میں خلل پڑ سکتا ہے یا پھر یہ مسئلہ اسے مکمل طور پر تباہ بھی کر سکتا ہے۔ اکثر اوقات زوجین میں جنسی تعلقات کی پیچیدگیاں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔
اگر جسمانی وجہ ہو تو ویجانزمس کا علاج مناسب دوائیوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کی وجہ نفسیاتی ہو تو سیکس تھراپی اور فزیوتھراپی تجویز کی جاتی ہے۔ جارج بھی فزیوتھراپی کے مرحلے سے گزریں لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ معاملات کو سو فیصد آرام دہ بنانے کے لیے انہوں نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
انہوں نے کہا ’مجھے یہ کہانی لکھتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوئی اور میں جب بھی لوگوں سے ملتی ہوں تو وہ میرے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر ہی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میرے خاندان کے افراد بھی اس مضمون کو پڑھیں گے لیکن میں یہ سب دوسروں کی بھلائی کے لیے کر رہی ہوں۔‘
© The Independent