پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کے ردعمل میں پاکستان نے نو اگست کو بھارت کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کر دیں۔ پابندی لگنے کے تین ہفتے بعد ہی احکامات میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت سے ادویات اور طبی آلات منگوانے کی اجازت دے دی گئی۔
یہ پابندیاں بھارت سے منگوائی گئی نصابی کتب پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان پبلشر اینڈ بُک سیلر ایسوسی ایشن کے نائب صدر سلیم ملک سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’ٹیکسٹ بُکس جو بھارت سے پاکستان منگوائی جاتی تھیں وہ آئندہ تعلیمی سال اس پابندی کی وجہ سے میسر نہیں ہوں گی جس سے طلبا کا بہت نقصان ہو گا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کی ’بہت سی امریکی اور غیر ملکی پبلشر کمپنیوں نے جنوبی ایشا میں کتابوں کی مناسب قیمت رکھنے کے لیے بھارت میں اپنے پبلشر ہاؤسز بنائے۔ وہاں او لیول، اے لیول، میڈیسن، انجنئیرنگ اور کمپیوٹر سے متعلقہ کتابیں چھاپی جاتی ہیں اور جنوبی ایشا کے دیگر ممالک میں ان کی ترسیل کی جاتی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ نو اگست کے تجارتی بندش نوٹیفیکیشن کے بعد پاکستان اب بھارت سے وہ کتب بھی درآمد نہیں کر سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان میں ان بین الاقوامی ٹیکسٹ بُکس کا سٹاک موجود نہیں تو سلیم ملک نے کہا کہ موجودہ تعلیمی سال کے لیے کتابیں تو طلبا نے خرید لی ہیں لیکن آنے والے دسمبر جنوری میں شروع ہونے والے سمسٹر اور تعلیمی سال کے لیے کتابوں کا ذخیرہ موجود نہیں اور اس کے لیے حکومت کو اقدام اٹھانے ہوں گے۔
کیا وہ کتابیں پاکستان میں پرنٹ نہیں ہو سکتیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس پرنٹ کرنے کے قانونی حقوق نہیں ہوں گے تو ہم پرنٹ نہیں کریں گے۔ اور بغیر اجازت اگر کتابیں پرنٹ کی جائیں گی تو وہ قانونی خلاف ورزی میں شمار ہو گا۔‘
سلیم ملک نے کہا کہ ’ہم نے بین الاقوامی پبلشر سے درخواست کی ہے کہ اگر 2000 سے زائد کتابوں کی سالانہ ضرورت ہے تو پاکستان کو وہ کتابیں پرنٹ کرنے کے قانونی حقوق دیے جائیں۔‘
انہوں نے کہا ’چونکہ پاکستان میں پرنٹنگ کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے یہاں صرف لوکل شاعری یا ادب کی کتابیں پرنٹ ہو جاتی ہیں لیکن یونیورسٹی پریس گروپ یا ہارورڈ پبلشر کی کتابیں بھارت میں ہی پرنٹ ہوتی ہیں۔ وہاں سے پاکستانی پبلشر وہ کتابیں منگوا کر بڑے کتاب گھروں میں تقسیم کر دیتے ہیں جہاں سے طلبا کتابیں خرید لیتے ہیں۔ لیکن جب مارکیٹ میں کتابیں میسر ہی نہیں ہوں گی تو طلبا کتابیں کہاں سے خریدیں گے؟ ‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاکستان کو پرنٹنگ کے حقوق مل جائیں تو اس سے پاکستان میں پبلشنگ بزنس بھی بڑھے گا اور روز روز کے پاکستان بھارت تناؤ سے درسی کتابوں کی تجارت میں بندش بھی نہیں آئے گی۔‘
اگر ادویات کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے تو کتابوں کی درآمد کی بھی اجازت حکومت کو دینی چاہئیے۔ اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے سلیم ملک نے کہا کہ 'ہم پبلشرز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہماری پہلی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکال لیں اور پاکستان میں پرنٹنگ کے حقوق حاصل کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 70 برس سے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔ اتنی اہم کتابیں پاکستان میں پرنٹ ہونا شروع ہو جاتیں تو دہلی سے درآمد کرانی ہی نہ پڑتیں۔ لیکن افسوس کہ تعلیم کو کبھی اتنی توجہ دی ہی نہیں گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت سے یہی اپیل ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالے اور پاکستان میں بین الاقوامی کتابوں کے پرنٹنگ حقوق لینے میں پبلشرز کی مدد کرے تاکہ ہم اہم تعلیمی کتابوں میں خودکفیل ہو سکیں۔‘
وزیر تعلیم شفقت محمود سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 'معاملہ وزارت تجارت دیکھ رہی ہے لیکن وہ خود بھی اس معاملے کو دیکھیں گے کہ درسی کتابوں کے معاملے پہ حکومت کیا کر سکتی ہے۔‘
درسی کتابوں کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت تجارت کے ترجمان محمد اشرف سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک حکومت کے علم میں یہ معاملہ تھا ہی نہیں اور نہ ہی کسی بھی پبلشر ایسوسی ایشن کے رکن نے وزارت تجارت سے رابطہ کیا ہے۔‘
وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ ’پبلشرز اگر حکومت کے پاس باضابطہ پروپوزل لے کر نہیں آئیں گے تو مسئلہ کیسے حل ہو گا؟ جب بھی دو ملکوں کے درمیان تجارتی پابندیاں لگتی ہیں تو دونوں ممالک میں بزنس کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ وزارت تجارت کو تو خوشی ہو گی اگر پاکستان کو بین الاقوامی پبلشرز سے حقوق ملیں اور یہاں ری پرنٹنگ کی سہولت مل جائے۔ اس سے پرنٹنگ انڈسٹری بھی ترقی کرے گی لیکن اس کے لیے متعلقہ پاکستانی پبلشرز کو معاملہ وزارت تجارت کے سامنے رکھنا ہو گا۔ صرف بیان میں یہ کہہ دینا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، اس سے مسائل کا حل نہیں ہوتا۔‘