یہ بات تو اب بہت پرانی ہوگئی ہے کہ سنیپ چیٹ، انسٹاگرام، فیس بک اور مائیکرو بلاگنگ کے اس دور کوئی اردو کتابیں نہیں پڑھتا، اچھی کتابیں نہیں لکھی جا رہیں یا اچھے لکھنے والے ختم ہوگئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس کے باوجود اگر کبھی کتابوں کی دکان کا چکر لگے تو نظر آئے گا کہ شیلف اردو کی نئی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں۔ آخر کوئی تو انہیں پڑھ رہا ہے، ورنہ ناشر اتنا خرچ کرکے کتابیں کیوں چھاپتے اور کتب فروش یہ کتابیں منگوا منگوا کر کیوں شیلفوں پر سجاتے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ گذشہ برس اردو میں کئی اہم کتابیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کیے رکھا، سوشل میڈیا پر بھی ان کا خوب تذکرہ ہوتا رہا اور لوگ پوچھتے رہے کہ یہ کتاب کہاں سے ملے گی؟
گویا سوشل میڈیا نے کتاب کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان پر بحث میں اضافہ کیا اور لوگوں نے کھل کر ان کی خوبیوں اور خامیوں پر بات کی۔ ان کتابوں میں حیرت انگیز طور پر کئی ناول بھی شامل ہیں۔
ناول ایک طویل صنف ہے، جسے لکھنا مصنف کی زبردست قوتِ ارادی کی دلیل ہے کیوں کہ عام سے عام ناول بھی مہینوں نہیں بلکہ سالہا سال کے کشٹ سے لکھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ناول پڑھنا بھی آسان کام نہیں کیوں کہ آج کی مصروف زندگی میں تین چار سو صفحے کا ناول شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے دو تین ہفتے اس کی نذر کر دیے ہیں۔
ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ سالِ گذشتہ میں ہمارے سامنے کئی اہم ناول آئے، جن کے ادیبوں کی فہرست میں سکہ بند ناول نگاروں کے علاوہ نئے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
منطق الطیر جدید
مستنصر حسین تارڑ کا شمار اردو کے سب سے زود نویس ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ 50 سے زائد کتابیں اور درجن کے لگ بھگ ناول لکھ چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین ناول ’منطق الطیر جدید‘ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اس ناول میں 12 ویں صدی کے عظیم فارسی صوفی شاعر فرید الدین عطار کی شہرۂ آفاق مثنوی ’منطق الطیر‘ سے استفادہ کیا ہے۔
منطق الطیر، قدیم خودشناسی کے سفر کی داستان ہے، جب کہ منطق الطیر جدید میں تارڑ صاحب نے پنجاب کی مقامی صوفیانہ روایات کو موضوع بنایا ہے۔ کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں اسلامی صوفی روایات کے علاوہ یوگیوں، سادھوؤں، بدھ بھکشوؤں اور سکھ گروؤں کی تعلیمات کو بھی آمیخت کیا گیا ہے اور یوں پانچ دریاؤں کی سرزمین کی امتزاجی خصوصیات اجاگر ہو کر سامنے آئی ہیں۔
تاہم بہت سے مقامات پر ناول کا بیانیہ طویل فلسفیانہ اور صوفیانہ مباحث کی وجہ سے خشک ہو کر رہ گیا ہے، جس سے کہانی کہیں دور رہ جاتی ہے اور کتاب منطق الطیر کے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنے کی بجائے گنجلک نثر کی دلدل میں پھڑپھڑاتی رہ جاتی ہے۔
پانی مر رہا ہے
2018 میں آنے والا ایک اہم ناول آمنہ مفتی کا ’پانی مر رہا ہے‘ ہے۔ آمنہ مفتی معروف ادیبہ ہیں اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مقبول سیریز تحریر کرچکی ہیں۔ یہ ان کا تیسرا ناول ہے۔ ناقدین نے اس پر بات کرنے کے لیے جادوئی حقیقت نگاری، فینٹیسی اور سریئلزم جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ہمارے خیال سے ناول کو ان درآمد شدہ اصطلاحات کی ضرورت نہیں، کیوں کہ اس میں بیان کردہ مافوق الفطرت واقعات ویسے ہی ہماری مشترکہ داستانوی ثقافت کا حصہ ہیں۔
یہ واقعات کیا ہیں؟ ناول میں ایک نہیں بلکہ دو بار آسمان سے مچھلیوں کی بارش ہوتی ہے، آدم خور میمنے اور کچھوے دندنا رہے ہیں، جہاں چوہے سانپوں کا شکار کرتے ہوں، جہاں عورتیں دھڑادھڑ ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جن کے آدھے دھڑ انسان اور آدھے مچھلی کے ہیں۔ اس ناول کی دنیا میں حویلیوں کی بنیادیں سانپوں کی بانبیوں پر قائم ہیں، جہاں ایک درخت پر لاکھ پرندوں کا بسیرا ہے اور جہاں شہروں اور دیہاتوں کے بیچوں بیچ ایسے ’نو گو ایریاز‘ قائم ہیں، جہاں جس جنے نے قدم رکھا، اس کی جان اور ہوش و حواس کی سلامتی کی ذمہ داری مصنفہ کی نہیں ہے۔
اس تمام تر سحرآلود فضا کے باوجود ناول آج کے دور کے جیتے جاگتے مسائل پر مبنی ہے۔ پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہونے والی کمی تو ناول کے مرکزے میں موجود ہے ہی، انسان کی حرص، زمین کی حرص، زر کی حرص اور جنس کی حرص، اس کے دوسرے بڑے موضوعات ہیں۔
جندر
اختر رضا سلیمی غزل کے معتبر شاعر تھے، لیکن انہوں نے اچانک غزل کا قلم دان چھوڑ کر ناول نگاری کا کی بورڈ سنبھال لیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ غزل کا شاعربحر، زمین، ردیف اور قافیہ کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے اور اس کے لیے شعر کے پیرائے میں ’اپنی بات‘ کہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
’جندر‘ اختر کا دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے ’جاگے ہیں خواب میں‘ کے ذریعے وہ لوگوں کو چونکا چکے ہیں۔
’جندر‘ ہندکو زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب پن چکی ہے۔ یہ ناول ارسطو کے ڈھائی ہزار سال قبل قائم کردہ وحدتِ زمان اور وحدتِ مکان کے اصول کی عمدہ پیروی کی مثال ہے۔ ناول کے آغاز میں ایک ’جندروئی‘ (جندر کا رکھوالا) کردار کہانی سنا رہا ہے جسے اپنی موت بالکل سامنے نظر آ رہی ہے۔ اس جندروئی کی زبانی ہمیں اس کی اپنی کہانی ملتی ہے، جو رفتہ رفتہ اس کی اپنی موت سے آگے بڑھ کر بدلتی ہوئی تہذیب و ثقافت اور پرانی قدروں کی موت کا نوحہ بن جاتی ہے۔
اس مختصر سے ناول میں اختر رضا سلیمی نے جس مہارت اور سہولت سے بڑے موضوعات کو گرفت میں لیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے شاعری ترک کرکے غلط فیصلہ نہیں کیا کیوں کہ اب وہ ’اپنی بات‘ کہنے پر قادر ہو گئے ہیں۔
چار درویش اور ایک کچھوا
کاشف رضا صحافی ہیں اور ’چار درویش اور ایک کچھوا‘ ان کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول پہلے اجمل کمال کے رسالے ’آج‘ میں چھپا تھا، بعد میں چند تبدیلیوں کے ساتھ الگ سے بھی منظرِعام پر آ گیا۔
یہ اوپر بیان کردہ ناولوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اسے مابعد جدید ناول کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ناول نگار نے فلسفیانہ انداز اختیار کیا ہے اور تکنیک اور زبان کے نت نئے تجربے بھی کیے ہیں۔
پری ناز اور پرندے
بھارت سے تعلق رکھنے والے انیس اشفاق کا ناول ’پری ناز اور پرندے‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں مایہ ناز افسانہ نگار نیر مسعود کے مشہور افسانے ’طاؤس چمن کی مینا‘ کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے اردو میں ایک تجربہ کیا گیا تھا جب سریندر پرکاش نے منشی پریم چند کے ناول ’گئودان‘ کے ایک کردار ہوری کو لے کر اس پر افسانہ لکھا تھا، لیکن افسانے پر ناول لکھنے کی یہ پہلی مثال ہے۔
پری ناز اور پرندے میں انیس اشفاق ’طاؤس چمن کی مینا‘ کی فلک بوس بلندیوں کو تو نہیں چھو پائے، تاہم اس افسانے کے شائقین کے لیے یہ ناول خاصے کی چیز ہے۔