دو ستمبر 2019 کو طالبان رہنماؤں کے ساتھ صبر آمیز اور محنت طلب امن مذاکرات کے نو ادوار کے بعد امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے خوشی سے اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ اصولی طور پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تاہم مسرت کے یہ لمحات مختصر ثابت ہوئے اور ٹھیک ایک ہفتے بعد امریکی صدر نے طالبان اور افغان حکومت کے رہنماؤں کے ساتھ امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کیمپ ڈیوڈ میں بلایا جانے والا غیر اعلانیہ اجلاس معطل کرنے کا غیر متوقع اور حیران کن اعلان کر دیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس واقعے کا پس منظر کیا ہے اور اس میں مختلف کرداروں کا کیا کردار رہا ہے۔
امریکہ
صدر ٹرمپ کا دعویٰ کہ کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی منسوخی کی وجہ طالبان کا ایک امریکی فوجی کو ہلاک کرنا ہے، ایک عذر معذور کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا گیا۔ دراصل اس کے پیچھے بہت سے دیگر محرکات ہیں۔ میٹنگ کو راز میں رکھنے کا فیصلہ امریکی حکومت میں ہم آہنگی کی کمی اور صدر کا کسی پر اعتماد نہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی ٹرمپ کی اتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ تھا اور وہ اس وعدے کی تکمیل کے لیے پرعزم رہے ہیں۔ تاہم ان کے اہم مشیر اس سلسلے میں ان کے ہمنوا نہیں ہیں۔ وہ طالبان کے ساتھ ایک واضح اور قابل عمل معاہدے کے بغیر امریکی فوجیوں کے انخلا کے حق میں نہیں۔ اس کام میں صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن، جنہیں امریکی جارحیت پسندوں کا لیڈر کہنا نامناسب نہ ہوگا، آگے آگے تھے۔
شنید ہے کہ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ اجلاس ناکام بنانے کی کوشش میں کچھ خبریں بھی افشا کیں۔ صدر نے یک جنبش قلم (اب تو قلم کو ٹویٹ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو!) جان بولٹن کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ صدر کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ مذاکرات طالبان کی بجائے صرف افغانستان کی منتخب حکومت سے کیے جائیں۔ چند امریکی قانون سازوں نے بھی مجوزہ اور ایک طرح سے مبہم معاہدے پر تنقید کی۔ 11 ستمبر کے حملوں کی برسی سے صرف چند روز پہلے القاعدہ کے حلیف طالبان سے خفیہ مذاکرات منعقد کرنے کا خیال بھی تنقید کا نشانہ بنا۔
ٹرمپ کا مذاکرات کو اچانک ختم کرنے کا فیصلہ طالبان پر دباؤ ڈال کر زیادہ رعایت لینے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے امریکہ یقینی طور پر طالبان سے ضمانت لینا چاہے گا کہ وہ امریکی انخلا سے پہلے ہتھیار ڈال دیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اس ضمانت کے بدلے میں طالبان کو کیا رعایت دے سکتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ شکست خوردہ اور منتقم صدر ٹرمپ اب طالبان کی طرف مزید سختی اختیار کریں گے۔ اس کا عندیہ صدر نے اپنے 11 ستمبر والی ٹویٹ میں بھی دے دیا ہے۔
صدر ٹرمپ ضدی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا اور پھر اس پر معذرت کرنا ان کی عادت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو مناسب وقت پر احساس ہو گیا تھا کہ وہ ایک ایسا معاہدہ کرنے جا رہے ہیں جس کو خارجہ پالیسی اور قومی سکیورٹی کے اداروں میں پذیرائی نہیں ملے گی۔ جب ٹرمپ نے اس غلطی کو محسوس کیا تو وضاحت یا معذرت کرنے کے بجائے انہوں نے وہی کیا جو وہ پہلے سے کرتے آ رہے ہیں۔ معاہدے کی منسوخی کا اعلان کر کے جان بولٹن کو بولڈ کر دیا تا کہ عوام کی توجہ بٹ جائے۔
ایک ذیلی نتیجے کے طور پر مشیر قومی سلامتی کی اہم پوزیشن سے بولٹن کی روانگی نے نئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ امور میں اب صلح جو سفارت کاری کو زیادہ اہمیت ملنے کا امکان ہے۔ اس سے ایران، افغانستان اور شمالی کوریا وغیرہ کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر مثبت اثر پڑے گا۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں اکثریت کی یہی رائے ہے کہ وہ غیر مستقل مزاج شخص ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی بغیر کابینہ کے مشوروں کے، ذاتی انداز میں چلاتے ہیں۔ اس لیے ان کی آئندہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا ممکن نہیں۔
افغانستان
امریکہ اور طالبان مذاکرات کی منسوخی کو کابل میں خوش آمدید کہا گیا۔ افغان حکومت شروع سے ہی ایسے مذاکرات کے خلاف رہی ہے جہاں حکومتی نمائندے شامل نہ ہوں۔ افغان صدر اشرف غنی نے بتایا کہ جولائی میں روس میں منعقدہ افغان کانفرنس کی کوئی افادیت نہیں کیونکہ افغانستان کے قانونی اداروں کی منظوری کے بغیر کسی بھی معاہدے کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ غنی حکومت نے اسلام آباد میں ہونے والے امریکہ طالبان مذاکرات کے ایک دور کو اس بنیاد پر نہیں ہونے دیا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان رہنماؤں کے سفر کرنے پر پابندی عائد ہے۔ صدر اشرف غنی کو یہ بھی خدشہ تھا کہ ان مذاکرات کی وجہ سے 28 ستمبر کو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ ان کو انتخابات میں اپنی کامیابی کی پوری امید ہے۔
طالبان
امن مذاکرات نے البتہ طالبان کی پوزیشن مضبوط کرنے میں مدد کی ہے۔ انہیں کچھ قابل ذکر فوائد حاصل ہوئے ہیں اور امن عمل میں ان کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ ان کا ایک طویل المعیاد مطالبہ تھا۔ اب افغانستان میں ان کی جیو سٹریٹجک اہمیت مسلّم ہے۔ کابل کی مرکزی حکومت کے پاس کئی علاقوں میں محدود یا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس وقت طالبان، افغانستان میں سب سے بڑے رقبے پر قابض ہیں۔ امن مذاکرات کے دوران طالبان کے حربی گروپ افغانستان میں مسلسل کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ مقصد مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا تھا۔ بالآخر یہی چالاکی ان کو لے ڈوبی۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا طالبان کا بنیادی مطالبہ ہے۔ ان کی دوسری اہم شرط یہ ہے کہ وہ کابل کی ’کٹھ پتلی حکومت‘ سے بات نہیں کریں گے۔ ان اہم پہلوؤں پر کوئی بھی رعایت طالبان کی تحریک میں رخنہ پیدا کرسکتی ہے۔
امریکہ اور طالبان کے معاہدے کی ناکامی کی ایک اہم وجہ اُن دو بنیادی مسائل پر اتفاقِ رائے کا فقدان تھا۔ طالبان نے اپنا کیمپ ڈیوڈ جانا غیر ملکی فوجیوں کی مکمل واپسی کے معاہدے سے مشروط کر دیا تھا۔ اس سے پہلے ایک مکمل جنگ بندی کا اعلان طالبان کی نظر میں بہت خطرناک اقدام ہوتا۔ طالبان صدر ٹرمپ کی 2020 کے صدارتی انتخابات کے پیش نظر مجبوریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کے برعکس طالبان کے ہاتھ میں لامحدود وقت ہے۔
بھارت
بھارت کا ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کہ امریکہ کی شہ پر اس ملک نے افغانستان میں غیر ضروری اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت طالبان کو ایک جائز سیاسی قوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان سے کسی قسم کے روابط کے خلاف ہے۔ ہندوستان کو افغانستان کی منتخب کردہ حکومت کی شمولیت کے بغیر امریکہ کے طالبان سے مذاکرات سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔
بھارت کو مذاکرات میں پاکستان کا فعال کردار ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مغربی ممالک میں پاکستان کی اس سلسلے میں اہمیت بھی انڈیا کے لیے ایک چیلنج ہے۔
بھارت کا خیال ہے کہ امریکہ کا طالبان سے مذاکرات کا اصل مقصد افغانستان میں مستقل امن نہیں بلکہ امریکی فوجیوں کو بحفاظت نکالنا ہے۔ بھارتی سکیورٹی سٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ طالبان کی موجودگی میں ملک سے غیر ملکی فوجیوں کی واپسی افغانستان کے لیے مہلک ثابت ہو گی۔ خانہ جنگی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے اور اگر افغانستان کو مکمل طور پر خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا تو پاکستان کے لیے افغان جہادیوں کو کشمیر میں بھیجنا آسان ہوگا۔
پاکستان
پاکستان کے سیاسی اور سفارتی حلقوں نے مذاکرات کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پاکستان ایک اہم پوزیشن میں ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد پاکستان نے امریکہ اور طالبان پر زور دیا کہ افغانستان میں پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان مذاکرات میں پیش رفت میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ پاکستان نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔ بیان میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ طرفین کو جاری سیاسی عمل سے مذاکرات کے ذریعے امن کی تلاش میں دوبارہ گامزن ہونا چاہیے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان میں تنازع کے نتیجے میں افغانستان کے بعد پاکستان سے زیادہ کسی اور نے نقصان نہیں اٹھایا۔ نتیجتاّ پاکستان سے زیادہ افغان امن مذاکرات میں کسی اور کو دلچسپی نہیں ہو گی۔ پاکستان نے طالبان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ صرف مذاکرات کا راستہ۔
ٹرمپ کے فیصلے نے پاکستان کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مستقبل میں اگر پاکستان کو طالبان سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے دوبارہ رجوع کرنا پڑا تو کیا طالبان اعتبار کریں گے؟
بھارت کے پانچ اگست کے فیصلے کے غیرقانونی اقدام اور اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات پستی کی نئی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ مشرقی سرحد پر خطرات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی متنازع اور غیر تسلی بخش پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندرونی حالات، بشمول معیشت کوئی قابلِ رشک تصویر پیش نہیں کر رہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے افغانستان میں امن کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے جولائی کے دورہ امریکہ میں جس طرح صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان کی مدد مانگی تھی، اس سے مسئلہ حل ہونے کے امکانات روشن ہوئے تھے۔ پاکستان کے عوام نے صدر ٹرمپ کے اس ارادے کو بہت سراہا، لیکن مذاکرات کی اچانک منسوخی سے پاکستان کے عوام اور حکومت میں یکساں مایوسی پائی جاتی ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ، نہ صرف اس تنازع میں پاکستان کی دیرینہ پوزیشن کی افادیت کو اجاگر کرے گا بلکہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن کے سلسلے میں ملک کا اہم کردار بھی برقرار رہے گا۔ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں واشنگٹن کی اسلام آباد میں دلچسپی قدرے کم ہونے کے خدشات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ کشمیر کی صورت حال ایک ایسا مسئلہ ہے جہاں پاکستان کو امریکہ سے تھوڑی بہت مدد کی امید تھی۔ اگرچہ صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے لیکن افغانستان میں امن کی بحالی میں پاکستان کے اہم کردار کی وجہ سے پاک بھارت مسائل، خصوصاً کشمیر کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر مذاکرات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کسی سٹریٹجک سوچ کے ساتھ کیا گیا ہے تو کشمیر کا مسئلہ واشنگٹن میں وہ اہمیت نہیں پائے گا جو دراصل ہونی چاہیے۔
یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اصل میں امریکہ طالبان مذاکرات ہی امریکہ میں کشمیر کے تنازع پر گفتگو کے آغاز کی وجہ بنے۔ صاف ظاہر ہے کہ بھارت کی کوشش یہی ہو گی کہ امریکہ طالبان مذاکرات دوبارہ شروع نہ ہوں تاکہ ایک طرف تو افغانستان میں امن قائم نہ ہو اور بھارت امریکہ کے پراکسی کے طور پر وہاں اپنی اہمیت بنائے رکھے اور دوسری طرف پاکستان کے لیے ایک مسلسل دردِ سر قائم رہے جو ملک کی توجہ درونِ خانہ مسائل سے ہٹائے رکھے۔ تاہم پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے حق میں بہتر یہی ہو گا کہ مذاکرات کا راستہ کھلا رہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ امریکہ اور طالبان دونوں کی طرف سے اس معاملے میں مثبت اشارے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس سلسلے میں روس کی وزارت خارجہ نے آج ہی ایک پُرامید اعلان کیا ہے، جس کے مطابق طالبان کے ایک وفد نے ماسکو میں روسی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف سے ملاقات کے بعد امریکہ سے امن مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ جواب میں ہمیں امریکہ کی طرف سے بھی اسی قسم کے حوصلہ افزا بیان کی توقع رکھنی چاہیے۔