ایک مختصر تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کتوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ذہنی دباؤ اور بے چینی کو کم کیا جاسکتا ہے۔
30 صحت مند بالغوں کے دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کتوں کے ساتھ محض تعلق بنانے خواہ وہ انہیں بنانا سنوارنا، انہیں کھانا کھلانا یا ان کے ساتھ کھیلنا ہو، دماغ میں برقی سرگرمی پیدا کرتا ہے جو آرام، ذہنی ارتکاز، تخلیقی صلاحیت اور توجہ سے وابستہ ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق میں شامل ہونے والے افراد نے بتایا کہ ’کتوں کے ساتھ تمام سرگرمیوں کے بعد وہ کم تھکاوٹ، افسردگی اور دباؤ محسوس کرتے ہیں۔‘
محققین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہو سکتا ہے کہ جانوروں کے ساتھ ’لگاؤ‘ نے تحقیق میں شامل افراد میں مذکورہ احساسات پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہو لیکن نتائج اس بات کے ثبوت کو مستحکم کرتے ہیں کہ کتوں کی مدد سے علاج جو اکثر ہسپتالوں، سکولوں اور جیلوں میں کیا جاتا ہے اس سے اضطراب اور دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جریدے پلوس ون میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے محققین نے 20 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 15 مردوں اور 15 خواتین کی دماغی سرگرمی کو جانچا۔ اس مقصد کے لیے الیکٹروانسفالوگرام (ای ای جی) نامی آلہ استعمال کیا گیا۔
ان افراد نے دوستانہ رویے کی مالک اور اچھی طرح تربیت یافتہ چار سالہ کتیا کے ساتھ وقت گزارا، وہ اس کے ساتھ کھیلے، اسے کھلایا پلایا کھلایا، بنایا سنوار، سہلایا، تصویریں بنائیں، اسے گلے لگایا اور اس کے ساتھ چہل قدمی کی۔ ہر سرگرمی تقریباً تین منٹ جاری رہی۔
محققین کا کہنا تھا کہ ای ای جی نے دماغ کی الفا لہروں کا پتہ اس وقت لگایا جب تحقیق میں شامل افراد کتے کے ساتھ کھیلتے اور چلتے تھے۔ اس عمل سے ’پرسکون بیداری کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔‘
دریں اثنا کتیا کو بنانے سنوارنے یا اسے آہستہ آہستہ سہلانے سے دماغ میں بیٹا لہروں میں اضافہ دیکھا گیا جو دماغ کے زیادہ ارتکاز سے وابستہ ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنفین نے لکھا کہ ’اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کتے کی مخصوص حرکات وسکنات (انسانی) دماغی سرگرمی میں اضافہ کرکے بھرپور آرام، جذباتی استحکام، توجہ، دماغی کے ارتکاز اور تخلیقی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کا سبب بنتی ہیں۔‘
نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں اینیمل سائنس کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر جیکولین بوئڈ کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کتوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے حیران کن نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’کتوں کے ساتھ مختلف اقسام کے براہ راست تعامل کے دوران لوگوں میں دماغی سرگرمی کی پیمائش کرنے سے انسان اور کتے کے تعلقات کے بارے میں ہماری تفہیم میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر بوئڈ نے مزید کہا کہ لوگوں کو تحقیق میں شامل کرنا ان لوگوں کے حق میں تھا جو پہلے سے ہی کتے کے روابط سے خوش ہیں اس لیے ’یہ کہنا کہ تمام کتوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے تمام لوگوں کو فائدہ ہوگا، اس ضمن میں احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’دوستانہ رویے کے مالک کتے کے ساتھ تحقیق کا حصہ بننے کے نئے کام کو اس اعتبار سے بھی نمایاں کیا جانا چاہیے کہ اعدادوشمار محدود ہو سکتے ہیں۔
’تاہم کتوں کے ساتھ تعامل کے دوران جسمانی ردعمل سے متعلق تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اور کتے کے باہمی تعامل کی حیاتیاتی بنیاد میں کچھ مسلسل مطابقت پائی ہے جو علاج میں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔